جنیوا (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق فروری 2021 میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 5,350 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج شہریوں کے قتل اور تشدد میں تیزی لا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میانمار کی فوجی حکومت نے مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے قتل و غارت گری اور گرفتاریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ تین سال قبل ہونے والی بغاوت کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
فوج نے فروری 2021 میں آنگ سان سوچی کی منتخب سویلین حکومت کو برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کچل دیا تھا۔
اس کے بعد سے احتجاجی تحریک ایک وسیع تر مسلح بغاوت میں بدل گئی۔ فوج نے اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کے تحت فروری میں بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی بھرتی شروع کی۔
منگل 17 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 5,350 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ان اموات کی تازہ ترین رپورٹنگ مدت اپریل 2023 سے جون 2024 تک میں 2,414 افراد ہلاک ہوئے، جو گزشتہ رپورٹنگ کی مدت کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ فضائی اور توپ خانے کے حملوں میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔
گرفتار اور ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کی میانمار ٹیم کے سربراہ جیمز روڈ ہیور نے کہا، ”میانمار انسانی حقوق کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔‘‘
جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے، روڈہیور نے کہا، ”میانمار کی فوج نے قانونی نظام کو آلہ کار بنا کر بحران پیدا کیا ہے، اور ملک پر حکومت کرنے کی کوششوں کے لیے اپنے خلاف اختلاف کی تقریباً تمام اقسام کو جرم قرار دے دیا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بغاوت کے بعد سے تقریباً 27,400 افراد کو گرفتار کیا گیا اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فوجی تربیتی مراکز میں ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرفتار کیے گئے افراد میں ایسے بچے بھی شامل ہیں جنہیں ”سیاسی مخالفت کی سزا کے طور پر‘‘ اس وقت پکڑ لیا گیا جب ان کے والدین کا پتہ نہیں چل سکا تھا۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کی ترجمان لز تھروسل نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ بغاوت کے بعد سے کم از کم 1,853 افراد حراست میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 88 بچے بھی شامل ہیں۔
اذیت دینے کے مختلف طریقے
روڈ ہیور کے بقول، ”ان میں سے بہت سے ہلاک ہونے والے افراد کے متعلق توثیق کی گئی ہے کہ انہیں اذیت کا نشانہ بنایا گیا، کچھ دیگر حراست میں بدسلوکی یا مناسب صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے انکار کے بعد ہلاک ہو گئے۔‘‘
روڈ ہیور نے مزید کہا، ”ہمارے کارکنوں نے زیر حراست جن افراد کا انٹرویو کیا ان سے پتہ چلا کہ اذیت دینے کے طریقوں میں کھانا یا پانی سے محروم رکھ کر چھت سے لٹکایا جانا، گھٹنے ٹیکنے یا سخت یا تیز چیزوں پر رینگنے پر مجبور کیا جانا، جانوروں مثلاﹰ سانپوں یا کیڑے مکوڑوں یا دوسرے جنگلی جانوروں کو سامنے لا کر خوف اور دہشت زدہ کرنا شامل ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کچھ متاثرین نے بانس کی لاٹھیوں، لوہے کے سریوں، رائفل کے بٹوں، چمڑے کی پٹیوں، بجلی کے تاروں اور موٹر سائیکل کی زنجیروں سے مار پیٹ کی تفصیلات بتائیں۔
میانمار کی فوج نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
انسانی حقوق گروپ، اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز کا کہنا ہے کہ اس نے بغاوت کے بعد سے کم از کم 5,665 شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ مزید 2,500 اموات کی تصدیق کر رہا ہے۔
ترک نے اس سفارش کا اعادہ کیا کہ میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جائے۔