واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) لبنان میں الیکٹرونک ڈیوائسز پھٹنے سے ہلاکتوں اور اسرائیلی وزیرِ دفاع کی جانب سے جنگ کا ‘نیا مرحلہ’ شروع ہونے کے بیان بعد اسرائیل اور حزب اللہ کی براہِ راست اور باقاعدہ جنگ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
سفارت کاری سے مسائل حل کرنے کی امیدیں تیزی سے دم توڑ رہی ہیں کیوں کہ اسرائیل نے شمال میں کسی حتمی تبدیلی کے اشارے دینا شروع کر دیے ہیں۔ یہاں لبنان کی مسلح ملیشیا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ برس سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے سرحدی علاقوں پر بمباری شروع کر دی تھی۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے انتہائی طاقت ور فورس کو شمالی سرحد کی جانب منتقل کیا ہے، اسرائیل رہنماؤں اور حکام کے لہجوں کی شدت بڑھ رہی ہے اور سیکیورٹی کیبنٹ نے سرحدی علاقوں سے جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کو واپسی لانے کا ہدف بھی متعین کر لیا ہے۔
یہاں جائزہ لیا گیا ہے کہ اسرائیل کس طرح لبنان کے کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔
فوجی دستوں کی غزہ سے شمالی سرحد پر منتقلی
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری رہنے والی جھڑپیں کئی مواقع پر شدت اختیار کرتی رہی ہیں لیکن دونوں حریف باقاعدہ جنگ سے بچنے کے لیے محتاط رہے ہیں۔
لیکن یہ ماحول تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ خاص طور پر منگل اور بدھ کو لبنان میں پیجرز، واکی ٹاکیز اور سولر آلات پھٹنے سے کم از کم 20 ہلاکتیں اور ہزاروں افراد زخمی ہونے کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے ہیں کیوں کہ حزب اللہ نے ان واقعات کے لیے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر جنرل اور جارح خیالات رکھنے والے سابق فوجی کمانڈرز کے گروپ اسرائیل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورم کے سربراہ عامر اویوی کا کہنا ہے کہ ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ہزاروں افراد کو نشانہ بنائیں اور پھر سوچیں کہ جنگ نہیں ہونے والی۔‘‘
عامر اویوی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے یہ سب 11 ماہ کے دوران کیوں نہیں کیا؟ کیوں کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب کیا ہو رہا ہے؟ اسرائیل جنگ کے لیے تیار ہو گیا ہے۔‘‘
غزہ میں لڑائی میں کمی آنے کے بعد اسرائیل نے لبنان سے ملحقہ اپنے سرحدی علاقوں میں فوج کی تعداد بڑھا دی ہے۔ رواں ہفتے غزہ جنگ میں شدید لڑائی میں حصہ لینے والے ایک طاقت ور ڈویژن کو بھی سرحد پر بھیجا گیا ہے۔
اسرائیل فوج کے 98 واں ڈویژن کے بارے میں اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس میں ہزاروں اہل کار ہیں جن میں چھاتہ بردار انفنٹری یونٹس، بھاری توپ خانہ اور دشمن کے عقب سے حملہ کرنے کی خصوصی تربیت رکھنے والی ایلیٹ فورس کے کمانڈوز بھی شامل ہیں۔
‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس فیصلے سے آگاہ ایک عہدے دار نے 98 ڈویژن کی اسرائیل لبنان سرحد کے قریب منتقلی کی تصدیق کی ہے۔
اس ڈویژن نے غزہ میں جاری لڑائی میں اہم کردار ادا کیا ہے خاص طور پر حماس کے گڑھ تصور ہونے والے علاقے خان یونس میں اسی ڈویژن نے کارروائیوں کو دائرہ وسیع کیا تھا۔
ان کارروائیوں میں حماس کے جنگجوؤں اور اس کی سرنگوں کو شدید نقصان پہنچا۔ لیکن ساتھ ہی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی جس کے باعث متعدد فلسطینی ہلاک اور ہزاروں علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
فوج کا کہنا ہے کہ وہ رواں ہفتے سرحد پر مشقوں کا سلسلہ شروع کرے گی۔
اسرائیل کی شمالی کمانڈ کے سربراہ میجر جنرل اوری گورڈن نے کہا ہے کہ مشن بہت واضح ہے۔ ہم سیکیورٹی سے متعلق حقائق کو جلد از جلد بدلنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
جنگ کا ’نیا مرحلہ‘
اسرائیل فوج کی نقل و حرکت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات میں بھی شدت آ گئی ہے جو مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کا صبر جواب دے گیا ہے۔
اسرائیل کی توجہ حزب اللہ کی جانب مبذول ہونے کے بعد وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے بدھ کی شب اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ’جنگ کے نئے مرحلے‘ کا آغاز کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وسائل اور افرادی قوت کی منتقلی کے ساتھ ہی توجہ کا مرکز شمال کی جانب منتقل ہو گیا ہے۔
ان کا یہ بیان اسرائیلی کی کابینہ کے اجلاس کے ایک دن بعد سامنے آیا تھا جس میں شمالی اسرائیل سے جنگ کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کو جنگ کا باقاعدہ ہدف قرار دیا گیا ہے۔
ایک علامتی اقدام کے طور پر اسرائیلی حکام پہلے بھی یہ اس بارے میں اپنے عزائم ظاہر کر چکے ہیں لیکن سرحدی بستیوں سے انخلا کے اعلانات میں اب شدت آتی جارہی ہے۔
اعلیٰ سیکیورٹی حکام اور امریکی سفارت کاروں سے ملاقاتوں میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو بھی یہ مؤقف شد و مد کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔
کیا جنگ ناگزیر ہے؟
اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حکومت نے تاحال لبنان پر باقاعدہ حملہ کرنے یا نہ کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
اس کا زیادہ انحصار حزب اللہ کے ردِعمل پر ہو گا۔ ایران نواز لبنانی ملیشیا کے سربراہ حسن نصر اللہ متوقع طور پر جمعرات کو اس بارے میں کوئی اعلان کر سکتے ہیں۔
تاہم اسرائیل میں حزب اللہ کے خلاف سخت اقدامات کو عوامی تائید حاصل ہے۔
رواں برس اگست میں یروشلم کے ایک تھنک ٹینک اسرائیلی ڈیمو کریسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 67 فی صد یہودی جواب دہندگان اس بات کے حق میں تھے کہ حزب اللہ کو جواب دینے کی شدت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
ان میں سے 46 فی صد یہودی جواب دہندگان یہ رائے رکھتے تھے کہ اسرائیل کو لبنانی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنانے کے لیے اندر تک کارروائیاں کرنی چاہییں جب کہ 21 فی صد نے حزب اللہ کو براہِ راست نشانہ بنائے بغیر حملوں میں شدت لانے کی حمایت کی۔
سابق اسرائیلی جنرل ایویوی کا کہنا ہے کہ جنگ شروع کرنے اور اسے جیتنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ جب تک حزب اللہ یہ نہیں کہتی کہ ہمیں واضح پیغام مل گیا ہے اور اب ہم جنوبی لبنان سے پسپا ہورہے ہیں۔ اس وقت تک جنگ ناگزیر ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو دونوں جانب بڑی تباہی آئے گی۔
پہلے ہی گزشتہ برس آٹھ اکتوبر کے بعد لبنان میں 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر حزب اللہ کے جنگ جو تھے تاہم 100 سے زائد شہریوں کی جانیں بھی گئی ہیں۔ شمالی اسرائیل میں لبنان سے ہونے والے حملوں کے نتیجے میں کم از کم 23 فوجی اور 26 عام شہری مارے جا چکے ہیں۔
اس سے قبل 2006 میں ایک ماہ تک جاری رہنے والی بے نتیجہ جنگ میں اسرائیل نے لبنان کو بھاری نقصان پہنچایا تھا۔ اسرائیلی رہنما اس سے بھی سخت نتائج کی دھمکیاں دے رہے اور یہ ایسے اعلانات کر رہے ہیں کہ غزہ کی تباہی کے مناظر لبنان میں بھی دہرائے جائیں گے۔
لیکن حزب اللہ نے بھی 2006 کے بعد اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔ حزب اللہ کے پاس اندازاً ڈیڑھ لاکھ راکٹس اور میزائل ہیں۔ بعض کے نزدیک حزب اللہ کے پاس میزائلوں کو کنٹرول کرنے والا گائیڈنس سسٹم بھی ہے جن سے وہ اسرائیل میں حساس اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ حزب اللہ زیادہ جدید ڈرونز کا دستہ بھی تیار کر چکی ہے۔
اسرائیل کے تمام حصوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والی حزب اللہ اسرائیل میں کاروبارِ زندگی کو مکمل طور پر معطل کر سکتی ہے اور ہزاروں اسرائیلیوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور کرسکتی ہے۔