روسی اعتراضات کے باوجود بھارتی ہتھیار یوکرین میں، رپورٹ

برلن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے) بھارت روس کو دیرینہ اور قابل قدر شراکت دار قرار دیتا ہے۔ لیکن ماسکو کے احتجاج کے باوجود نئی دہلی نے بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کی کوشش نہیں کی۔

گیارہ بھارتی اور یورپی حکومتی اور دفاعی صنعت کے حکام سے بات چیت کے ساتھ ساتھ دستیاب کسٹمز ڈیٹا کے تجارتی تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ بھارتی اسلحہ سازوں کی طرف سے فروخت کردہ توپ خانے کے گولے یورپی صارفین نے یوکرین کی طرف موڑ دیے ہیں اور نئی دہلی نے ماسکو کے احتجاج کے باوجود اس تجارت کو روکنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں کی۔

ذرائع اور کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق روس کے خلاف یوکرین کے دفاع کے لیے جنگی ساز و سامان کی منتقلی ایک سال سے زائد عرصے میں ہوئی ہے۔ بھارتی اسلحے کی برآمد کے ضوابط کے مطابق ہتھیاروں کا استعمال صرف اعلان کردہ خریدار تک ہی محدود رہنا چاہیے اور غیر مجاز منتقلی کی صورت میں معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔

تین بھارتی عہدیداروں نے بتایا کہ کریملن نے اس معاملے کو کم از کم دو مواقع پر اٹھایا ہے۔ ان میں جولائی میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف اور ان کے بھارتی ہم منصب کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی شامل ہے۔

رازداری کے پیش نظر تمام عہدیداروں نے اپنے نام شائع کیے جانے سے منع کر دیا۔

روس اور بھارت کی خارجہ وزارتوں نے جواب نہ دیا

روس اور بھارت کی وزارت خارجہ اور دفاع نے اس معاملے سے متعلق سوالات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جنوری میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت نے یوکرین کو نہ تو توپ خانے کے گولے بھیجے ہیں اور نہ ہی فروخت کیے ہیں۔

بھارتی حکومت کے اور دفاعی صنعت کے دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ دہلی نے یوکرین کی طرف سے استعمال ہونے والے گولہ بارود کی صرف بہت ہی کم مقدار تیار کی ہے۔ ایک اہلکار کے مطابق یہ جنگ کے بعد کییف کی طرف سے درآمد کیے گئے مجموعی ہتھیاروں کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

روئٹرز نیوز ایجنسی اس بات کا تعین نہیں کر سکی کہ آیا یہ گولہ بارود دوبارہ فروخت کیا گیا تھا یا یورپی صارفین نے کییف کو عطیہ کیا تھا۔

ایک ہسپانوی اور ایک سینئربھارتی اہلکار کے ساتھ ساتھ بھارت کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ینترا انڈیا، جس کا گولہ بارود یوکرین استعمال کر رہا ہے، کے ایک سابق اعلیٰ ایگزیکٹیو کے مطابق یوکرین کو بھارتی جنگی ساز و سامان بھیجنے والے یورپی ممالک میں اٹلی اور چیک جمہوریہ شامل ہیں، جو کییف کو یورپی یونین کے باہر سے توپوں کے گولے فراہم کرنے کے اقدام کی قیادت کر رہے ہیں۔

بھارتی اہلکار نے کہا کہ دہلی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لیکن انہوں نے اور دفاعی صنعت کے ایک ایگزیکٹیو، جنہیں ہتھیاروں کی منتقلی کا براہ راست علم ہے، نے کہا کہ بھارت نے یورپ کو سپلائی روکنے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی۔

یوکرینی، اطالوی، ہسپانوی اور چیک وزارت دفاع نے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہ دیا۔

دوستانہ رسہ کشی
روس بھارت کو اسلحے کی 60 فیصد سے زیادہ برآمد کرتا ہے۔ وہ بھارت کا ایک قابل قدر شراکت دار ہے۔ جولائی میں وزہر اعظم مودی نے تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے دو طرفہ بین الاقوامی دورے کے لیے ماسکو کا انتخاب کیا تھا۔ نئی دہلی حکومت نے ماسکو کے خلاف مغربی قیادت میں پابندیوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔

حکومتی پالیسیوں سے قریبی طور پر واقف بھارت کے چھ ذرائع کا کہنا ہے کہ دہلی، جو کہ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک ہے، یورپ میں طویل جنگ کو اپنے نئے ہتھیاروں کی برآمد کے شعبے کو ترقی دینے کے موقع کے طور پر بھی دیکھتا ہے۔

اسی ماہ قزاقستان میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور روسی وزیر خارجہ لاوروف کے درمیان ہونے والی ایک میٹنگ میں روسی وزیر نے یوکرینیوں کے ذریعہ بھارتی جنگی ساز و سامان کے استعمال کے بارے میں اپنے ہم منصب پر دباؤ ڈالا اور شکایت کی کہ ان میں سے کچھ سرکاری بھارتی کمپنیوں کے ذریعے بنائے گئے ہیں۔

اس میٹنگ میں ہونے والی بات چیت کا علم رکھنے والے بھارتی عہدیدار نے تاہم جے شنکر کا جواب شیئر نہیں کیا۔

کنگز کالج لندن میں جنوبی ایشیا کے سکیورٹی امور کے ماہر والٹر لاڈوِگ کا کہنا تھا کہ گولہ بارود کی نسبتاً کم مقدار کی منتقلی دہلی کے لیے سیاسی طور پر مفید تھی۔

انہوں نے کہا، ”یہ بھارت کے مغرب میں شراکت داروں کو بتانے کی کوشش ہے کہ وہ روسی یوکرینی تنازعے میں ‘روس کی طرف‘ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو نے دہلی کے فیصلوں سے بہت کم فائدہ اٹھایا۔

دوسری طرف امریکہ میں وائٹ ہاؤس نے اس پیش رفت پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ہتھیاروں کی برآمدات سے متعلق سوالات دہلی سے پوچھے جانا چاہییں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں