اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روکی نہیں جائے گی، جرمن حکومت

برلن (ڈیلی اردو/روئٹرز/ڈی پی اے) خبر رساں ادارے رائٹرز نے جرمن وزارت اقتصادیات کے حوالے سے بتایا تھا کہ قانونی وجوہات کی بنا پر برلن نے اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی برآمدات روک دی ہیں۔ تاہم جرمن حکومت نے اس خبر کی تردید کی ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق برلن حکومت نے ان میڈیا رپورٹوں کی تردید کی ہے کہ جرمنی اب اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے اجازت نامے جاری نہیں کر رہا۔

اس معاملے کے لیے ذمہ دار وزارت اقتصادی امور کے ترجمان نے برلن میں بدھ کے روز کو ڈی پی اے کو بتایا، ”اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے اور کوئی روک نہیں لگائی گئی ہے۔‘‘

ایک حکومتی ترجمان نے ڈی پی اے کو بتایا، ”اسرائیل کے لیے جرمن ہتھیاروں سے متعلق کوئی برآمداتی بائیکاٹ نہیں ہے۔‘‘

وزارت کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”وفاقی حکومت ہر ایک انفرادی کیس میں متعلقہ صورت حال کی روشنی میں محتاط جانچ پڑتال، خارجہ اور سکیورٹی پالیسی نیز قانونی اور سیاسی تقاضوں پر غور و خوض کے بعد ہی ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے اجازت دینے کا کوئی فیصلہ کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنے میں جرمن حکومت بین الاقوامی انسانی قانون کو بھی مدنظر رکھتی ہے۔

ترجمان نے کہا، ”ہر انفرادی کیس پر غور کرتے وقت موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس میں حماس اور حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں سمیت غزہ میں جاری آپریشن بھی شامل ہے۔‘‘

وزارت اقتصادیات کے ذرائع نے کیا کہا؟

روئٹرز نے اس وزارت کے ایک اعلیٰ اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ جرمنی پر یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ وہ انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیار برآمد کر رہا ہے، جس کے بعد قانونی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے کے لائسنسوں کی منظوری مبینہ طور پر روک دی گئی تھی۔

جرمن وزارت اقتصادیات نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ روئٹرز کی رپورٹ کی اشاعت کے بعد جرمن حکومت نے ایک بیان جاری کر دیا۔

جرمن حکومت کے ترجمان نے کہا، ”اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمدات کا کوئی بائیکاٹ نہیں ہے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ کا بیان

گیارہ ستمبر کو شائع ہونے والی ایک پوڈکاسٹ میں جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کہا تھا کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے بعد جرمنی نے اسرائیل کو اس کے دفاع کے لیے ہر ممکن مدد دینے کی کوشش کی۔

بیئربوک نے تاہم کہا کہ جرمنی کسی بھی صورت میں اس طرح کی حمایت نہیں کر سکتا، جس سے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ ان کے مطابق، ”اسی لیے ہتھیاروں کی برآمدات کے حوالے سے سات اکتوبر کے بعد ایسا کوئی اسلحہ برآمد نہیں کیا گیا جو غزہ میں استعمال کیا جا سکتا ہو اور جس سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔‘‘

جرمن وزارت اقتصادیات، جو کہ ایسے برآمدی لائسنس منظور کرتی ہے، کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی نے گزشتہ سال اسرائیل کو 363.5 ملین ڈالر کے فوجی آلات اور ہتھیار برآمد کئے۔ یہ سن 2022 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تھے۔

تاہم اس سال ایسی منظوریوں میں کمی آئی ہے۔ ایک پارلیمانی سوال کے جواب میں وزارت اقتصادیات کی طرف سے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق اس سال جرمنی کی طرف سے جنوری سے 21 اگست تک اسرائیل کو صرف 14.5 ملین یورو مالیت کے ہتھیاروں کی برآمد کی منظوری دی گئی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے قبل ازیں جرمن وزارت اقتصادیات کے ایک قریبی ذریعے کے حوالے سے خبر دی تھی کہ جرمنی نے قانونی چیلنجز کی وجہ سے اسرائیل کو جنگی ہتھیاروں کی نئی برآمدات پر روک لگا دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں