اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) پاکستانی حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں کے دو مختلف واقعات جنوبی وزیر ستان کے علاقے میں پیش آئے۔ حالیہ مہینوں میں سرحد پار سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے پاک افغان سرحد کے قریب فائرنگ کے تبادلے کے دو الگ واقعات میں کم از کم آٹھ پاکستانی فوجی اور سات عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ پاکستانی انٹیلی جنس ذرائع نے آج بروز جمعہ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بھاری ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نےجمعرات کی شب جنوبی وزیرستان کے علاقے میں ایک فوجی چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا، جس میں چھ فوجی ہلاک اور دیگر 10 زخمی ہو گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان نصف شب کے قریب فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا، جو کئی گھنٹے تک جاری رہی۔ جنوبی وزیرستان، افغان سرحد کے قریب پاکستان کے سب سے زیادہ غیر مستحکم علاقوں میں سے ایک ہے، جس پر کسی زمانے میں القاعدہ اور افغان طالبان سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کا کنٹرول تھا۔ بعدازاں ان عسکریت پسندوں کو 2014ء میں پاکستانی فوج کے ایک آپریشن میں سرحد کے اس پار افغانستان میں دھکیل دیا گیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان اگرچہ افغان طالبان سے الگ ہے تاہم یہ دونوں عسکریت پسند گروہ سنی اسلام کی ایک ہی سخت گیر تشریح کی پیروی کرتے ہیں۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری تشدد میں تقریباً 80,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق اسی علاقے میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں پاکستانی سرحدی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں کم از کم دو پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے۔
اس کے علاوہ جمعرات کی شب سات طالبان جنگجوؤں کے ایک گروپ کو پاکستانی فوجیوں نے اس وقت ہلاک کر دیا، جب وہ افغان سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ سرحد پار سے ہونے والے حملوں نے اسلام آباد اور کابل کے مابین تعلقات کشیدہ کر دیے ہیں۔ افغانستان میں افغان طالبان کا کنٹرول ہے، جنہیں تجزیہ کاروں کے مطابق کبھی پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی حمایت حاصل تھی۔