یروشلم (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل فوج کی جانب سے جمعے کے روز لبنان کے جنوبی نواحی علاقے میں واقع ایک اپارٹمنٹ پر کیے گئے فضائی حملے میں حزب اللہ کی رضوان فورس کے کمانڈر ابراہیم عقیل کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
حزب اللہ نے بھی ان کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے جمعہ کے روز لبنان کے دارالحکومت میں حزب اللہ کے گڑھ بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں ایک مقام کو نشانہ بناتے ہوئے ایک فضائی حملہ کیا جس میں لبنانی وزارت صحت کے مطابق دس سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس فضائی حملے میں حزب اللہ کے اہم کمانڈر ابراہیم عقیل اور دیگر جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔
آئی ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ ابراہیم ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے ’طوفان الجلیل آپریشن کا منصوبہ‘ بنایا تھا، جس کا مقصد اسرائیل کے علاقے الجلیل کے قصبوں پر حماس کی طرح سات اکتوبر جیسا حملہ کرنا تھا۔
عرب میڈیا کے لیے فوج کے ترجمان اویچے عدرائی نے دعویٰ کیا کہ ابراہیم عقیل نے 1980 کی دہائی میں حزب اللہ کے اسلامی جہاد ونگ میں شمولیت اختیار کی جو کہ لبنانی سرزمین سے باہر حزب اللہ کی کارروائیوں کا ذمہ دار ہے اور انھوں نے مختلف ممالک میں جنگجو کارروائیوں میں اپنا کردار ادا کیا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی حملہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی تقریر کے ایک دن بعد ہوا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سکیورٹی نظام میں نقب لگائی گئی ہے۔ اسرائیل نے الیکٹرانک ڈیوائس دھماکے کرکے تمام حدیں پار کردی ہیں۔‘
حسن نصراللہ کے مطابق ’اسرائیلی حملوں کا جواب اس انداز سے دیا جائے گا جو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔‘
اگرچہ اسرائیل نے ابھی تک ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم حسن نصراللہ نے اسرائیل کو ’سخت‘ جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
لبنان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں 37 افراد ہلاک اور تقریباً 3000 زخمی ہوئے۔
تنظیم میں دوسرے اہم آدمی
ابتدائی معلومات کے مطابق ابراہیم عقیل کو ’تحسین‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور وہ فواد شکر کے قتل کے بعد ایک ہفتہ قبل تنظیم کے سیکنڈ ان کمانڈ بنے تھے۔
وہ حملے کے وقت لبنان کے نواحی علاقے میں قائم ایک عمارت میں حزب اللہ کے ایک اجلاس میں شریک تھے۔
ابراہیم عقیل لبنان میں 1962 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے حزب اللہ کے اعلیٰ ترین عسکری ونگ جہاد کونسل میں خدمات انجام دیں اور شکر کے قتل کے وقت تک تنظیم کے آپریشنز کمانڈر اور تیسرے اہم آدمی تھے۔
اسرائیلی آرمی ریڈیو کے مطابق ’ابراہیم عقیل حزب اللہ کے آپریشنز ڈویژن کے سربراہ تھے اور گذشتہ کئی عرصے سے وہ ان کے نشانے پر رہے ہیں۔‘
امریکہ نے ان کے سر کی قیمت 70 لاکھ ڈالر رکھی
ابراہیم عقیل اسرائیل اور امریکہ دونوں کو مطلوب تھے اور امریکہ نے ان کے سر کی قیمت ستر لاکھ ڈالر رکھی ہوئی تھی۔ انھیں حزب اللہ کا اہم رہنما تصور کیا جاتا تھا۔
امریکی ریوارڈ پروگرام کی ویب سائٹ کے مطابق 1980 کی دہائی میں جب عقیل حزب اللہ کے اسلامی جہاد کے ایک اہم رکن تھے، اس کی عسکری ونگ نے اپریل 1983 میں بیروت میں امریکی سفارت خانے پر بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
اکتوبر 1983 میں امریکی میرین کی بیرکوں پر حملے کے پیچھے بھی عقیل کا ہاتھ تھا جس میں 241 امریکی ہلاک ہوئے تھے۔ اسی عرصے کے دوران ابراہیم عقیل نے امریکی اور جرمن یرغمالیوں کو لبنان لے جانے کا حکم دیا تھا۔
یو ایس ٹریژری نے 21 جولائی 2015 کو جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈر 13582 کے تحت عقیل کو ’دہشت گرد‘ کے طور پر نامزد کیا اور ان پر حزب اللہ کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا۔
10 ستمبر 2019 کو امریکی محکمہ خارجہ نے ترمیم شدہ ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے تحت عقیل کو ’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔