نیو یارک (ڈیلی اردو/وی او اے) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی صورت میں افغان طالبان کو تنہا کرنے کی پالیسی کا حامی نہیں ہوگا اور وزیر اعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر افغانستان کے استحکام کے لیے طالبان کے ساتھ روابط رکھنے پر زور دیں گے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے آغاز کے موقع پر وائس آف امریکہ کے علی فرقان کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں منیر اکرم نے کہا کہ افغان طالبان کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن افغانستان کے اندرونی اور بیرونی مسائل مشترکہ حکمت عملی اور متفقہ اقدامات لینے سے ہی حل ہوسکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ افغان حکومت کی غلطیوں کی سزا افغانستان کی عوام کو نہیں ملنی چاہئے اور اسلام آباد کی کوشش ہے کہ افغان طالبان کی غلطیوں کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت دور کیا جاسکے۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان دنیا پر طالبان حکومت سے روابط رکھنے پر پالیسی پر زور دے رہا ہے۔
منیر اکرم کے بقول “ہم نے ہر وقت کہا ہے کہ افغانستان سے روابط رہنے چاہئیں، اختلاف ہوسکتے ہیں ان کے(طالبان حکومت) ساتھ لیکن بات چیت رہنی چاہئے۔ سفارتکاری کا مقصد ہی یہ ہے کہ روابط کے ذریعے اور اپنی پالیسی کے زریعے حالات کو بدلا جا سکے۔”
افغان طالبان کے ساتھ سفارتکاری اور سیکورٹی پر ایکشن ساتھ ساتھ لے رہے ہیں!
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت سے اپنے مسائل تو حل نہیں کرسکا تو دنیا کو اس بات پر کیسے قائل کرے گا؟ منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کے افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں بشمول سرحدی و تجارتی مسائل، اس کے باوجود اسلام آباد انسانی بنیادوں پر افغانستان کے لوگوں کی امداد، تعلیم ا وردیگر سہولیات کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے تعلقات افغان عوام کے ساتھ ہیں جو لامحدود ہیں اور ہم اپنا جفرافیہ تبدیل نہیں کرسکتے ہیں اور ہمیں ہمسایوں کے ساتھ بات چیت اور روابط رکھنےہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کے ساتھ جو اختلاف ہیں انہیں دوسرے طریقے سے دور کریں گے لیکن اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کو تہنا چھوڑ دیا جائے۔
منیر اکرم کے بقول “جہاں ہمیں ایکشن لینے کی ضرورت ہے وہ اپنی سیکورٹی کے لئے ہم لے رہے ہیں جہاں ہمیں سفارت کاری کی ضرورت ہے وہاں ہم سفارتی عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔”
یاد رہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی تنازعات میں اضافہ ہوا ہے اور اسلام آباد کی جانب سے افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے مطالبے میں شدت پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان افغانستان کے حوالے سے تنہا نہیں ہوا ہے!
اس سوال پر کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی اپنائے ہوئے تھا تاہم چین اور خطے کے بعض ممالک یکطرفہ طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟
اسکے جواب میں منیر اکرم نے کہا کہ بیجنگ اور خطے کے دیگر ممالک نے افغانستان کے حوالے سے کوئی ایسا فیصلہ نہیں لیا ہے کہ پاکستان پیچھے رہ گیا ہو۔
انہوں نے چین اور متحدہ عرب امارات نے افغانستان کے سفیروں کو اپنے دارلحکومتوں میں واپس بلایا ہے جبکہ اسلام آباد میں افغانستان کا سفارت خانہ پہلے سے کام کررہا ہے۔
منیر اکرم نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک کے فورم کا وزارتی اجلاس بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں خطے کے ملک افغانستان کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی پر غور کریں گے کہ کس طرح افغانستان کے مسائل سے نمٹنا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی افغانستان کے لیے واضع اور جامع پالیسی ہے کہ افغانستان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے اور طالبان حکومت سے روابط رکھنے چاہئیں کیونکہ بات چیت اور مشترکہ حکومت عملی سے ہی طالبان حکومت کی غلط پالیسیوں کو درست کروایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب نے اس سوال کے جواب میں کہ آیا پاکستان اب بھی افغانستان کے منجمد اثاثے طالبان حکومت کے حوالے کرنے کے موقف کی تائید کرتا ہے، کہاکہ پاکستان یہی موقف رکھے گا کہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو بحال کرنے تدبیر ڈھونڈنی ہوگی کیونکہ افغان عوام کو اس کی ضرورت ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں افغان حکومت کہ غلط پالیسیاں درست کی جائیں لیکن اس کی وجہ سے افغان عوام کو تکلیف نہیں پہنچائی جانی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالبان کے ساتھ دوطرفہ طور پر کوشش کررہا ہے کہ افغان سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہ ہو، انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے اور حکومت میں تمام طبقات کی شراکت ہو۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ مشترکہ طور پر اس حکمت عملی کو اپنانے سے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت کشمیر پر یکطرفہ اقدامات واپس لے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی ترجیحات پر بات کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح معاشی و سماجی ترقی ہے، دوسری ترجیج کشمیر اور فلسطین کے عالمی مسائل اور افغانستان کی صورتحال ہے. وزیر اعظم شہباز شریف کے خطاب میں ان امور پر توجہ دلائی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی کوشش ہے کہ بھارت کشمیر میں اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات واپس لے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم کرے تاکہ مزاکرات کا ماحول بن سکے اور بات چیت کے نتیجے میں اس عالمی تنازعے کا حل نکالا جاسکے۔ اور وزیر اعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے علاؤہ عالمی رہنماؤں سے ملاقات میں بھی ان مسائل کے حل پر زور دیں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اقوام متحدہ کے ساتھ پاکستان کا انسداد دہشتگری اور امن آپریشن کے حوالے سے جو تعاون ہےاس پر بھی توجہ دی جائے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ نیویارک کی تفصیلات بتاتے ہوئے منیر اکرم کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جنرل اسمبلی کے علاؤہ سلامتی کونسل، ماحولیات کے حوالے سے کانفرنس سے بھی خطاب کریں گے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے ملاقات بھی کریں گے۔
شہباز شریف دولت مشترکہ کے اجلاس، جی 77، غیر جانبدار ممالک کے اتحاد اور افغانستان کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کے فورم میں بھی شرکت کریں گے۔
پاکستان کے مستقبل مندوب نے بتایا کہ جنرل اسمبلی کے موقع پر امریکی صدر بائیڈن سے ملاقات متوقع ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم صدر بائیڈن اور بنگلہ دیش کے نگران سربراہ محمد یونس کی جانب سے دیئے گئے عشائیے میں بھی شرکت کریں گے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر چار دن تک نیویارک میں قیام کریں گے اور اس دوران وہ عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔