برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایرانی حمایت یافتہ لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے کمیونیکشن آلات کو ہتھیاروں میں کس نے بدلا اور کیا یہ کارروائی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے؟ ان سوالات کا جواب ڈی ڈبلیو کی اس رپورٹ میں۔
رواں ہفتے لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے ارکان کے زیر استعمال پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے کے بعد سے غیریقینی کی صورت حال برقرار ہے۔ ہم فقط یہ جانتے ہیں کہ ان دھماکوں کے نتیجے میں 37 افراد ہلاک جب کہ تین ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔
ہیجرز ایسے ریڈیو آلات ہیں جو شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ استعمال کرتی ہے۔ فونز کے مقابلے میں پیجرز کی جیولوکیشن کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ پیجرز تائیوان میں قائم ایک کمپنی تیار کرتی ہے۔ اسی لیے تائپی میں پراسیکیوٹر دفتر نے ان آلات سے متعلق تفتیش شروع کر دی ہے۔ اس سے قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد نے حزب اللہ کو ارسال کیے جانے والے ان پیجرز کو راستے ہی میں انٹرسیپٹ کر کے ان میں معمولی مقدار میں دھماکا خیز مواد بھر دیا تھا۔
پیجرز میں دھماکا خیز مواد کیسے بھرا گیا؟
اسرائیلی حکومت نے اب تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جب کہ اسی دوران مختلف اور متضاد رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بلغاریہ کی ایک کمپنی بھی ان پھٹنے والے پیجرز کی تیاری میں شامل تھی۔ بلغاریہ کے حکام نے تاہم ان رپورٹوں کو مسترد کیا ہے۔
برلن میں قائم فری یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہلموٹ آؤسٹ کے مطابق ان حملوں سے متعلق کوئی بھی اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا، ”بین الاقوامی قانون میں سب سے پہلے کسی تنازعے کی نوعیت جانچی جاتی ہے کہ آیا یہ واقعی بین الاقوامی یا غیربین الاقوامی تنازعہ ہے۔ اس معاملے کی سرحد پار نوعیت کے باوجود، یہ واضح معاملہ نہیں ہے کیونکہ بین الاقوامی تنازعہ دو ریاستوں کی مسلح افواج کے درمیان ہوتا ہے، حزب اللہ لبنان کی ریاستی مسلح فورس نہیں ہے۔‘‘
اسرائیل ذاتی دفاع کے حق پر مصر
7 اکتوبر کو اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اسرائیل غزہ پٹی میں بڑی عسکری کارروائیوں میں مصروف ہے۔ اسرائیل مسلسل یہ اصرار کر رہا ہے کہ اسے ذاتی دفاع کا حق حاصل ہے۔ مگر کیا اسرائیل کا ذاتی دفاع کا حق حزب اللہ تک وسیع کیا جا سکتا ہے؟
آؤسٹ کے مطابق، ”بین الاقوامی قانون میں، ذاتی دفاع کے حق کا مطلب ہے کسی مسلح حملے کی صورت میں اپنا تحفظ کرنا ہے اور یہ کہ وہ حملہ جاری بھی ہو۔ ظاہر ہے حزب اللہ اسرائیل کی جانب راکٹ داغ رہا ہے۔ مگر ایک طویل عرصے سے لبنان میں اسرائیلی عسکری کارروائیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ اس لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس تنازعے کی ابتدا کب ہوئی۔ اس معاملے میں کئی چیزیں جنگ کی دھند میں غیرواضح ہیں۔‘‘
ہتھیار بند گروہ کو ہدف بنانے کی اجازت
لبنانی وزارت صحت کے مطابق ملک میں پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے زخمی ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ بون یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے شعبے کے پروفیسر شٹیفان ٹالمون کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت بنیادی اصول یہ ہے کہ عسکری کارروائی صرف ہتھیار بند شخص کے خلاف ہو اور تمام ممکنہ حد تک اس کا ہدف کوئی اور نہ بنے۔‘‘ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ٹالمون کا کہنا ہے، ”حزب اللہ کے جنگجو جنگ کے میدان میں نہ ہوں تو بھی ایک جائز ہدف ہیں، حتیٰ کہ اگر وہ پسپا ہو کر اپنی بیرکوں میں بھی چلے جائیں۔‘‘
یونیورسٹی آف جنیوا سے وابستہ مارکو ساسولی کی رائے بھی یہی ہے، ”بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قانون کے مطابق سوال یہ ہو گا کہ جو لوگ مارے گئے، کیا وہ ایک جائز ہدف تھے؟ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی مسلح تنازعے میں کسی مسلح گروہ کو کسی جاری جنگی کارروائی میں ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل دلیل دے سکتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے ساتھ ایک مسلح تنازعے میں مصروف ہے۔‘‘