نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے منگل کو کہا کہ اس کا اتحادی حزب اللہ کسی ایسے ملک کے خلاف تنہا کھڑا نہیں ہو سکتا ، جس نے 2006 کے بعد لبنان پر ایک ہی دن میں اپنے مہلک ترین فضائی حملے کیے تھے۔
پیزشکیان نے CNN کے ساتھ فارسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ، ” حزب اللہ کسی ایسے ملک کے خلاف تنہا کھڑا نہیں ہو سکتا جس کا مغربی ممالک، یورپی ممالک اور امریکہ کی طرف سے دفاع کیا جا رہا ہے اورجس کی حمایت کی جارہی ہے اور مدد فراہم کی جا رہی ہے۔”
اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران حزب اللہ کو تحمل سے کام لینے پر زور ڈالنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے گا، انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ “لبنان کو ایک اور غزہ نہ بننے دے۔”
ملک کی وزارت صحت کے مطابق، پیر کو لبنان پر اسرائیلی حملوں میں 50 بچوں سمیت 550 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہےکہ اس نے پیر کو حزب اللہ کے تقریباً 1600 اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں “بڑی تعداد میں” عسکریت پسند ہلاک ہوئے ، اور منگل کو مزید حملے کیے گئے۔
پیزشکیان نے، جو اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی کے لیے نیویارک میں موجود ہیں، منگل کے روز اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی “غیر عملی” کی مذمت کی۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا، ’’اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ اپنی ملاقات میں، میں نے کہا کہ قابض حکومت کے جرائم کے خلاف اقوام متحدہ کی بے عملی بے معنی اور ناقابل فہم ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ “میں نے پورے مشرق وسطیٰ میں تنازع کے پھیلاؤ کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔”
اسرائیلی حملے حزب اللہ کے مواصلاتی آلات کو نشانہ بنانے والے مربوط تخریب کاری کے ان حملوں کے ایک ہفتے سے بھی کم وقت کے بعد ہوئے ہیں جن میں 39 افراد ہلاک اور تقریباً 3,000 زخمی ہوئے تھے۔
ایرانی میڈیا
ایرانی میڈیا نے اسرائیل کو ایک مکمل جنگ کی طرف بظاہر بڑھنے کا الزام عائد کیا ۔
کٹڑ قدامت پسند اخبار ،’ جوان ‘نے کہا، “صیہونی حکومت نے جنگ کا بٹن دبا دیا ہے۔” ،جبکہ اس کے حریف اخبار ، ’کیہان ‘نے پوچھا: “کیا بڑی جنگ شروع ہو گئی ہے۔؟”
سرکاری روزنامے ایران نے خبردار کیا کہ “خطہ ایک بڑے دھماکے کے دہانے پر ہے۔” اصلاحی اخبار ،’ اعتماد‘ نے کہا کہ “لبنان میں امن کی صورتحال انتہائی خطرناک ہے ۔”
ایرانی صدر نے اسرائیل پر جنگ کا متلاشی ہونے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ ” یہ اسرائیل ہی ہے جو اس وسیع تر تنازعے کو پیدا کرنا چاہتا ہے۔”
پیزشکیان نے ایک گول میز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا کہ “ہم سب سے بہتر جانتے ہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ چھڑ جاتی ہے، تو اس کا عالمی سطح پر کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے “گزشتہ 100 برسوں میں کبھی بھی جنگ شروع نہیں کی” اور وہ “عدم تحفظ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہا”۔
لیکن انہوں نے زور دے کر کہا ، کیا کہ ایران “کبھی بھی کسی ملک کو ہمیں کسی چیز پر مجبور کرنے اور ہماری سلامتی اور علاقائی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا۔”
تہران میں مقیم سیاسی مبصر محمد رضا منافی نے اس دوران مشورہ دیا کہ سخت بیان بازی کے باوجود اسلامی جمہوریہ کا تحمل کی حکمت عملی کی جانب جھکاؤ زیادہ تھا۔
منافی نے کہا، “اسرائیل ایران کو براہ راست جنگ میں گھسیٹنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے،” لیکن “ایران موجودہ صورتحال میں تحمل برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جنگ میں ایران کی ممکنہ براہ راست شمولیت میں ابھی بہت وقت باقی ہے لیکن وہ حزب اللہ کی حمایت جاری رکھے گا۔
یاد رہے کہ غزہ میں جاری جنگ میں حزب اللہ نے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے اور جنگ کے آغاز کے بعد وہ یہ گروپ کئی بار اسرائیل کے اندر راکٹ حملے کر چکا ہے۔
غزہ جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور تقریبا 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔