قبائلی ضلع کرم میں حالات چار روز سے کشیدہ

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں چار روز سے جاری جھڑپیں رکوانے کے لیے انتظامیہ اور گرینڈ جرگے کی کوششیں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور منگل کو بھی ضلعے کے مختلف علاقوں میں حالات شدید کشیدہ ہیں۔

کرم پولیس کے اہلکاروں کے مطابق منگل کو رات گئے تک بالیش خیل، خارکلے، پاڑا چمکنی، کڑمان، کنج علیزئی اور مقبل میں شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا اور فریقین ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے اپنے مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

ضلع کرم میں سنیچر کے روز گاؤں بوشہرہ اور احمد زئی کے دو گھرانوں کے درمیان مورچوں کی تعمیر پر جھگڑا شروع ہوا تھا تاہم مقامی عمائدین اس جھگڑے کو رکوانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

بعدازاں حالات اس وقت خراب ہوئے جب کہ ایک علاقے میں بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے بعد بوشہرہ میں فائرنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا جہاں ایک بار پھر حالات پر قابو پا لیا گیا لیکن کرم کے دیگر چار مقامات پر مخالف فرقوں کے قبائل کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں جن کا دائرہ پھر کرم بالا اور کرم زیریں تک پھیل گیا۔

متنازعہ اراضی پر مورچوں کی تعمیر کے معاملے پر شروع ہونے والی اس لڑائی میں پیر کی صبح تک 12 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی تاہم منگل کی صبح تک مزید تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاراچنار کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوراٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ پیر کے دن ان کے پاس 16 زخمی لائے گئے جن میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ اس کے علاوہ تحصیل ہسپتال صدہ کے ڈاکٹر رحیم کا کہنا ہے کہ منگل کی صبح ایک راکٹ حملے میں ایک خاتون ہلاک اور ایک زخمی ہوئی ہیں جبکہ پیر کی شب بھی راکٹ گرنے سے ایک بچہ ہلاک اور دو خواتین زخمی ہوئی تھیں۔

ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں اہلِ تشیع اور اہلِ سنت قبائل دونوں کے افراد شامل ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ علاقے میں خوف پایا جاتا ہے اور ساری رات فائرنگ کی آوازیں گونجتی رہی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کرم جاوید محسود نے کہا ہے کہ مقامی انتظامیہ جنگ بندی کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے اور منگل کو بھی ایک اہم جرگہ ہو رہا ہے جس کے بعد امید ہے فائر بندی ہو جائے گی۔

سابق سینیٹر اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ساجد طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ گرینڈ جرگہ میں ہنگو، اورکزئی، کوہاٹ اور دیگر علاقوں کے عمائدین نے جھڑپیں رکوانے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور منگل کو دونوں جانب سے تعلق رکھنے والے مقامی عمائدین پھر کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک ریاست اس میں اپنا کردار ادا نہیں کرتی یہ مسئلے جاری رہیں گے۔ صرف مورچے خالی کرانا اور وہاں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کو بٹھانے سے عارضی طور پر فائر بندی ہو جاتی ہے لیکن جو مسئلہ ہے اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جولائی میں جھڑپوں کے بعد متعدد جرگے ہوئے لیکن حکومت کی جانب سے زیادہ توجہ نہ دیے جانے سے معاملات حل نہیں ہو رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں