پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں متحارب قبائلیوں کے درمیان جمعے سے شروع ہونے والی جھڑپیں تاحال جاری ہیں اور پانچ روز کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔
ڈپٹی کمشنر کرم نے اب تک ان جھڑپوں کی وجوہات کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان تو جاری نہیں کیا مگر انتظامی عہدیداروں کا کہنا کہ یہ جھڑپیں در اصل متحارب قبائلی گروپوں اور خاندانوں کے مابین جائیداد کے تنازع پر ہو رہی ہیں۔ ماضی میں اس قسم کی جھڑپیں فرقہ وارانہ کشیدگی میں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
ضلعی پولیس دفتر کے اہلکاروں نے جھڑپوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کو چھوٹے بڑے ہتھیاروں سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
کرم کے مرکزی انتظامی شہر پارا چنار سے تعلق رکھنے والے صحافی سجاد حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ اس وقت کرم کے اپر، لوئر اور سینٹرل تینوں تحصیلوں کے چار مختلف مقامات پر متحارب فریقین کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
سجاد حیدر کے مطابق منگل کی شب مزید 8 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جب کہ اب تک جھڑپوں کے دوران 21 افراد ہلاک اور 30 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ مقامی سینئر صحافی علی افضال کہتے ہیں ہلاکتوں کی تعداد 26 ہو چکی ہے جب کہ کرم سے منتخب رکنِ قومی اسمبلی سید حمید حسین نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 30 سے تجاوز کر چکی ہے۔
سید حمید حسین نے وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فریقین کے درمیان لڑائی ختم کرانے کے لیے جرگہ منگل کو روانہ ہوا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کوئی منظم طریقے سے اس آگ کو بھڑکانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان فائرنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے بالش خیل سدہ، مقبل پاڑہ چمکنی اور پیواڑ تری ہیں جب کہ ضلع کرم کا دیگر علاقوں سے رابطہ منتقطع ہونے سے علاقے میں اشیائے خور و نوش، ادویات اور تیل کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔