تل ابیب (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اِرنا/ڈی پی اے) ایران کی سرحد پر ایسے افغان مہاجرین کی قطاریں لگی ہوئی تھیں، جنہوں نے بچوں کو اپنی بانہوں اور کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور ان کا کُل مال و متاع ان کے پاس موجود ایک یا دو بڑے بڑے بیگز میں بند تھے۔
ہر روز تقریباً تین ہزار تک افغان مہاجرین ایران سے اپنے آبائی ملک واپس آ رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں، جو ایران ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ سرحدی شہر اسلام قلعہ میں آنے والوں کی رجسٹریشن کے ذمہ دار عبدالغنی قاضی زادہ کہتے ہیں، ”پناہ گزینوں کو بہت زیادہ جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
بہت سے افغان غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوئے یا ان کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ ان میں سے تقریباً 90 فیصد کو ملک بدر کر دیا گیا ہے جبکہ باقی رضاکارانہ طور پر واپس آ رہے ہیں۔
قاضی زادہ بتاتے ہیں، ”گزشتہ چھ مہینوں میں بے دخل کیے جانے والے مہاجرین کی شرح میں کافی اضافہ ہوا ہے۔‘‘
قاضی زادہ کے مطابق، ”انہیں وہاں (ایران میں) خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر چلے جائیں، یا 18 سال سے اوپر کا کوئی بھی فرد بینک میں 100 ملین تومان (2,375 ڈالر) جمع کرائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ وہ لوگ ہیں، جو اس مسئلے کی وجہ سے رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس آ رہے ہیں۔‘‘
سرحد پر ان مہاجرین کی رجسٹریشن افغان حکام کر رہے ہیں لیکن اس کی نگرانی بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت (آئی او ایم) کرتی ہے۔ واپس آنے والے خاندانوں کو فی شخص 2000 افغانی (29 ڈالر) دیے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی اکیلا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں ملتا۔
36 سالہ رمضان عزیزی اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے ساتھ رجسٹریشن کے لیے ایک نیلے رنگ کی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ایک اسمگلر کو 1220 ڈالر ادا کرنے کے بعد سن 2023 میں غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوئے تھے۔
لیکن انہیں بھی ایران میں دیگر افغانوں کی طرح بڑھتی ہوئی نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران میں افغان مہاجرین پر بے روزگاری میں اضافے کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ جرائم کا بھی الزام عائد کیا جاتا ہے۔ رمضان عزیزی ایک تعمیراتی کارکن ہیں۔ انہوں نے بتایا، ”مالکان کو جرمانہ ادا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے اپنا گھر ہمیں کرایے پر دے رکھا تھا۔ پولیس نے ہماری چیزیں کھڑکیوں سے باہر پھینک دیں۔‘‘
رمضان مزید کہتے ہیں، ”انہوں نے (حکام نے) ہمیں سامان باندھنے کو کہا اور ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہمیں ایک فوجی کیمپ میں لے جایا گیا تاکہ ملک بدر کیا جا سکے۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کو 2000 سے 3000 دیگر افغانوں کے ساتھ چھ دن تک قید میں رکھا گیا، جہاں کھانے اور پانی کا بھی مناسب انتظام نہیں تھا۔
29 سالہ دیہاڑی دار مزدور عبدالبشیر نے بتایا کہ انہیں کام کے دوران گرفتار کیا گیا اور ایک درست پاسپورٹ اور ویزا ہونے کے باوجود ایران سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایا، ”ایک پاسپورٹ کے ساتھ میں 10 دن تک فوجی کیمپ میں رہا۔ کون سی حکومت ایسا کر سکتی ہے؟‘‘
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایرانی سکیورٹی اہلکاروں نے افغان پاسپورٹ یا درست ایرانی رہائشی اجازت نامے پھاڑ ڈالے۔ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے جمعرات کو تہران سے کہا کہ وہ ” ایسے افغان مہاجرین کے ساتھ صبر سے تعاون کرے، جنہوں نے ایران کی ترقی میں بھی کردار ادا کیا ہے۔‘‘
دوسری جانب چند روز پہلے ہی ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کہا تھا کہ تہران حکومت غیر قانونی شہریوں کو ”باعزت طریقے سے‘‘ اپنے ملک واپس بھیج رہی ہے۔ ایران کئی دہائیوں کی جنگ اور بے روزگاری سے فرار ہونے والے 4.5 ملین افغانوں کا میزبان ملک رہا ہے۔ ایرانی کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق ایران میں افغان باشندے 90 فیصد سے زیادہ غیر ملکی شہریوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور زیادہ تر شناختی کاغذات کے بغیر داخل ہوتے ہیں۔
سوشل نیٹ ورکس پر جاری ہونے والی تصاویر کے مطابق متعدد ایرانی بیکریوں میں ایسے پیغامات آویزاں ہیں کہ غیر ایرانیوں کو روٹیاں فروخت نہ کی جائیں اور یہ کہ ایسا کرنے والوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک افغان مہاجر خاتون فضیلہ قادری کا اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے روٹی خریدنے کے قابل نہیں تھیں۔
دوسری جانب گزشتہ سال ستمبر میں شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے بعد سے سات لاکھ سے زائد افغان شہری پڑوسی ملک پاکستان بھی چھوڑ چکے ہیں۔