اوسلو (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز/اے ایف) ناروے کی پولیس ایک انڈین نژاد نارویجین شہری رینسن ہوزے کی تلاش میں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی کمپنی نے مبینہ طور پر عسکری گروپ حزب اللہ کو وہ پیجر سپلائی کیے تھے، جن میں بم نصب تھے۔
اس مہینے کے وسط میں لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں سے 38 افراد ہلاک اور 3000 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا تاہم اسرائیل نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
ان دھماکوں کے بعد رینسن ہوزے لاپتہ ہیں اور ناروے کی پولیس نے ان کا پتہ لگانے کے لیے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیا ہے۔
رینسن ہوزے کام کے سلسلے میں امریکہ کے شہر بوسٹن گئے تھے اور تب سے وہ لاپتہ ہیں۔ وہ اس بلغاریائی کمپنی کے بانی ہیں جس نے مبینہ طور پر یہ پیجرز لبنان میں حزب اللہ گروپ کو فروخت کیے تھے۔
ناروے کی پولیس نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ’اوسلو کی پولیس کو بدھ کے دن پیجر دھماکے سے متعلقہ ایک شخص کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ ملی۔ گمشدگی کے ایک کیس کی تفتیش شروع کر دی گئی اور ان کی تلاش کا انٹرنیشنل وارنٹ جاری کیا گیا۔‘
ناروے میں بین الاقوامی معاملات کی تفتیش کرنے والی پولیس کی شاخ کیرپوس کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ اگر کوئی شخص دوسرے ممالک میں لاپتہ ہوا ہو تو عموماً کیرپوس ایک بین الاقوامی الرٹ یا ’ییلو نوٹس‘ جاری کرتی ہے لیکن کچھ مخصوص حالات میں غیر ملکی محکموں سے بھی براہ راست رابطہ قائم کر سکتی ہے۔‘
انٹرپول نے ابھی تک اس کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔
گذشتہ بدھ کو روئٹڑز نے رینسن ہوزے سے جب فون پر پیجر میں دھماکوں کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوبارہ فون کیے جانے پر انھوں نے فون کال کاٹ دی۔
اطلاعات کے مطابق ہوزے نے 2022 میں بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ’نورٹا گلوبل‘ نام کی ایک کمپنی قائم کی۔
بلغاریہ کی پولیس نے پیجر بم کی سپلائی میں اس کمپنی کے کردار کی تفتیش کی لیکن انھيں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ یہ پیجرز ملک کے اندر بنائے گئے یا یہاں سے انھیں لبنان برآمد کیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے بلغاریہ کی قومی سلامتی سے متعلقہ ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’تفتیش سے یہ بالکل واضح ہے کہ 17 ستمبر کے دھماکے سے مشابہت رکھنے والا ایسا کوئی بھی پیجر یا واکی ٹاکی بلغاریہ میں نہ تو بنایا گیا اور نہ ہی یہاں سے کہیں اور بر آمد کیا گیا۔‘
بلغارین ایجنسی نے مزید کہا ہے کہ نورٹا گلوبل کمپنی نے ایسا کوئی لین دین نہیں کیا، جس سے دہشت گردی کی مالی اعانت کے قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔
ناروے کی پولیس بھی ان پیجرز کی فروخت اور سپلائی میں ایک نارویجین کمپنی کے ملوث ہونے کی خبروں کی تفتیش کر رہی ہے۔
خبروں کے مطابق یہ پیجرز تائیوان کی ایک کمپنی گولڈ اپولو کے ہیں لیکن انھیں ہنگری کی ایک کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ نے بنایا تھا لیکن ان کی سپلائی مبینہ طور پر ’نورٹا گلوبل‘ فرم کے ذریعے ہوئی تھی۔
رینسن ہوزے کون ہیں ؟
رینسن ہوزے کا تعلق انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ ویناڈ علاقے سے ہے۔
پیجر دھماکوں کے سلسلے میں ہوزے کا نام سامنے آنے کے بعد مقامی پولیس نے ویناڈ میں ان کے والدین کی رہائش گاہ کے اطراف میں حفاظی انتطامات کیے ہیں۔
روونامہ انڈین ایکسپریس نے خفیہ سروس کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی کہ ’ان کے والدین کو کوئی خطرہ لاحق نہیں لیکن گذشتہ جمعہ کے روز سے اس علاقے میں گشت اور نگرانی بڑھا دی گئی ہے۔‘
’رینسن اور ان کے جڑواں بھائی جینسن اور ان کی بہن کئی برس سے بیرون ممالک میں کام کر رہے ہیں لیکن یہاں ان کے والدین اور فیملی کے حالات دیکھ کر ان کی دولت کا پتہ نہیں چلتا۔ پچھلے برسوں میں دونوں بھائیوں نے یہاں بس ایک چھوٹی سی زمین خریدی۔‘
مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم بنگلور میں حاصل کرنے کے بعد مینیحمنٹ میں ڈگری حاصل کی اور دس برس قبل ناروے منتقل ہو گئے۔
رینسن کو چند برس قبل ناروے کی شہریت مل گئی تھی۔ لنکڈ ان پر ان کی پرفائل کے مطابق انھوں نے ناروے میں کئی برس تک انفارمیشن ٹکنولوجی اور ڈیجیٹل سروسز کے شعبے میں کام کیا تھا۔
کئی برس تک وہ ناروے کی ڈی این میڈیا کمپنی سے وابستہ رہے جس میں انھوں نے ڈیجیٹائزیشن اور آٹومیشن شعبے پر توجہ مرکوز کی۔
بلغاریہ میں نورٹا گلوبل نام کی جو کمپنی انھوں نے قائم کی اس نے 2022 میں یورپ سے باہر کی سروسز سے سات لاکھ 25 ہزار ڈالر کی انکم ڈکلئیر کی تھی۔
لبنان میں پیجرز دھماکوں کے بعد ان پیجرز کی سپلائی میں ان کی فرم کا نام آنے کے بعد ناروے اور بلغاریہ کی پولیس کے ساتھ ساتھ انڈین پولیس نے بھی تفتیش کی۔
رینسن ہوزے گذشتہ سال اپنی بیوی کے ہمراہ اپنے آبائی گاؤں آئے تھے۔ پیجر دھماکوں کے سلسلے میں ان کی کمپنی کا نام آنے کے بعد ان کے والدین نے ان سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک بات چیت نہیں ہو سکی۔
رینسن ہوزے کی طرف سے ابھی تک کوئی بیان نہیں آیا اور نہ ہی امریکی حکام نے تفتیش کے لیے انھیں اپنی حراست میں لینے کا کوئی ذکر کیا۔
ابھی تک یہ راز کھل نہیں سکا کہ چھوٹی ساخت کے ان ہزاروں پیجرز میں انتہائی جدید دھماکہ خیز مادہ کس نے اور کہاں نصب کیا۔