واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) اسرائیل کے حملے میں لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی مبینہ ہلاکت کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق ایران کے دو مقامی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ خامنہ ای کو ایران میں ہی سخت سیکیورٹی والی جگہ پر منتقل کیا گیا ہے۔
رائٹرز ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حسن نصر اللہ کو ایک حملے میں ہلاک کیے جانے کے دعوے کے بعد ایران حزب اللہ سمیت دیگر جنگجو گروہوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔
اسرائیلی فوج نے ہفتے کو ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جمعے کو بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا تھا جس میں حسن نصراللہ اور حزب اللہ کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر علی کرکی سمیت دیگر اہم رہنما مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے مزید کہا ہے نصراللہ کو ختم کر دیا ہے اور وہ اب دنیا کو دہشت زدہ نہیں کر سکیں گے۔
ادھر حزب اللہ نے ہفتے کو تصدیق کی ہے حسن نصر اللہ اسرائیل کے فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔
حسن نصر اللہ لبنان کی وہ واحد شخصیت تھے جو جنگ چھیڑنے یا امن قائم کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ لیکن وہ اپنی تحریک کے دیرینہ دشمن اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کے لیے ایک روپوش زندگی گزارتے تھے۔ نصراللہ کو 2006 میں اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی جنگ کے بعد سے عوام میں شاذ و نادر ہی دیکھا گیا تھا۔
سال 2011 میں وہ بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک مذہبی جلوس میں سامنے آئے تھے اور کسی نامعلوم مقام سے ویڈیو پر ہجوم سے خطاب کرنے سے پہلے انہوں نے حامیوں کو مختصر طور پر خوش آمدید کہا تھا۔
لبنان کے حزب اللہ نواز اخبار ‘الاخبار’ کو 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ “اسرائیلی اس خیال کو پھیلا رہے ہیں کہ میں عوام سے دور رہتا ہوں، میں اُن سے نہیں ملتا اور نہ ہی اُن سے بات چیت کرتا ہوں۔”
انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے سونے کی جگہیں باقاعدگی سے بدلتے ہیں، لیکن انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ وہ کسی بنکر میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا “حفاظتی اقدامات کا تقاضا ہے کہ نقل و حرکت کو خفیہ رکھا جائے، لیکن یہ مجھے گھومنے پھرنے اور یہ دیکھنے سے نہیں روکتے کہ کیا ہو رہا ہے۔”
حزب اللہ سربراہ کی کبھی کبھار مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ تصاویر بنائی گئیں۔
حسن نصر اللہ نے لبنان اور پوری عرب دنیا میں اپنا غیر معمولی مقام اس وقت حاصل کیا جب اسرائیل نے مئی 2000 میں حزب اللہ کے زبردست حملے کے باعث جنوبی لبنان سے اپنی فوجیوں کو واپس بلالیا، جس سے سرحدی پٹی پر اس کا 22 سال کا قبضہ ختم ہوا۔
نصراللہ کی برسوں کی قیادت میں،حزب اللہ یا ’اللہ کی جماعت‘ ایک چھاپہ مار دھڑے سے ملک کی سب سے طاقت ور سیاسی قوت بن چکی گئی۔
لبنان کے بہت سے مقامی شیعہ حزب اللہ کو، خیراتی اداروں کی مدد کرنے، اپنے مضبوط مراکز میں صحت اور تعلیم کی سہولیات بڑھانے اور حامیوں میں سے ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر سراہتے ہیں۔
لیکن منقسم لبنان میں اس تحریک سے بڑے پیمانے پر نفرت بھی کی جاتی ہے، جس میں وہ لوگ شامل ہیں جو فرقہ بندی سے پاک ایک ایسے ملک کا خواب دیکھتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔
نصراللہ کی ذاتی مقبولیت پوری عرب دنیا میں اس کے بعد بڑھ گئی تھی جب اسرائیل کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والی ایک جنگ بندی 2006 میں ختم ہوئی۔
اس کے بعد 2011 سے ان کی مقبولیت کو اس وقت دھچکا لگا جب انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے لیے پڑوسی ملک شام بھیجا۔
ایران میں پانچ روزہ سوگ
حسن نصراللہ کی ہلاکت پر ایران میں پانچ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔
اسرائیل کی تازہ ترین کارروائی کے بعد ایران میں بھی سیکیورٹی کے سخت اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سپریم لیڈر کو نشانہ بنائے جانے کے خدشے کے پیشِ نظر یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں کس مقام پر منتقل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں ایران کے دارالحکومت تہران میں فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کو سرکاری مہمان خانے میں اُس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے بعد واپس مہمان خانے پہنچے تھے۔ اسرائیل نے تاحال سرکاری طور پر ہنیہ کے قتل کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
البتہ خامنہ ای نے حسن نصراللہ کی ہلاکت کے اسرائیلی فوج کے دعوے کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام مسلمان لبنان کے عوام اور حزب اللہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
اسرائیل کا حوالہ دیتے ہوئے خامنہ ای نے کہا کہ ‘ظالم’ حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے آپ کے پاس جو وسائل ہیں ان سے حزب اللہ کی مدد کریں۔
ایرانی سرکاری ٹی وی پر خامنہ ای کے جاری بیان کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ خطے کی قسمت کا فیصلہ مزاحمتی قوتیں کریں گی اور حزب اللہ اس میں سب سے آگے ہے۔
خامنہ ای کا یہ بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب اسرائیل اور حزب اللہ کی درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل کے لبنان پر حملوں میں لبنانی وزارتِ صحت کے مطابق 720 سے زیادہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہیں۔
اسرائیلی حملوں میں حزب اللہ کے کئی اہم رہنما مارے گئے ہیں۔