واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں ایران نواز عسکری تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ ہلاک ہوگئے ہیں۔ حزب اللہ نے اپنے لیڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی فوج نے جمعے کو جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی گڑھ کو نشانہ بنایا تھا۔
حسن نصر اللہ لبنان کی وہ واحد شخصیت تھے جو جنگ چھیڑنے یا امن قائم کرنے کی طاقت رکھتے تھے۔ لیکن وہ اپنی تحریک کے دیرینہ دشمن اسرائیل کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کے لیے ایک روپوش زندگی گزارتے تھے۔
نصراللہ کو اپنے شیعہ حامیوں میں غیر معمولی حیثیت حاصل تھی اور وہ لبنان کے اداروں پر کنٹرول رکھتے تھے۔ ان کا گروپ لبنان کی قومی فوج سے کہیں زیادہ خطرناک اور کہیں زیادہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔
حسن نصراللہ کیوں روپوش زندگی گزارتے تھے؟
نصراللہ کو 2006 میں اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی جنگ کے بعد سے عوام میں شاذ و نادر ہی دیکھا گیا تھا۔
سال 2011 میں وہ بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک مذہبی جلوس میں سامنے آئے تھے اور کسی نامعلوم مقام سے ویڈیو پر ہجوم سے خطاب کرنے سے پہلے انہوں نے حامیوں کو مختصر طور پر خوش آمدید کہا تھا۔
لبنان کے حزب اللہ نواز اخبار ‘الاخبار’ کو 2014 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں حسن نصر اللہ نے کہا تھا کہ “اسرائیلی اس خیال کو پھیلا رہے ہیں کہ میں عوام سے دور رہتا ہوں، میں اُن سے نہیں ملتا اور نہ ہی اُن سے بات چیت کرتا ہوں۔”
انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے سونے کی جگہیں باقاعدگی سے بدلتے ہیں، لیکن انہوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ وہ کسی بنکر میں رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا “حفاظتی اقدامات کا تقاضا ہے کہ نقل و حرکت کو خفیہ رکھا جائے، لیکن یہ مجھے گھومنے پھرنے اور یہ دیکھنے سے نہیں روکتے کہ کیا ہو رہا ہے۔”
حزب اللہ سربراہ کی کبھی کبھار مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ تصاویر بنائی گئیں۔
بہت کم لوگوں کے بارے میں یہ خیال کیا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ نصر اللہ کہاں رہتے تھے۔ حالیہ برسوں میں جن اہلکاروں اور صحافیوں نے نصراللہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے سخت حفاظتی اقدامات کے بارے میں بتایا جن کے باعث وہ یہ نہیں جان سکے کہ انہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔
گزشتہ دو عشروں میں ان کی زیادہ تر تقاریر کسی خفیہ مقام سے ریکارڈ اور نشر کی گئیں۔
حماس کی حمایت
ایک پر اثر عوامی مقرر، 64 سالہ نصراللہ ایک باریش عالمِ دین تھے جنہیں کبھی روایتی عبا اور سیاہ پگڑی کے بغیر نہیں دیکھا گیا۔ وہ شادی شدہ اور چار بچوں کے باپ تھے۔
حسن نصر اللہ 1992 میں صرف 32 سال کی عمر میں اُس وقت حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے جب ایک اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹر نے ان کے پیشرو عباس الموسوی کو ہلاک کر دیا تھا۔
حزب اللہ واحد گروپ ہے جس نے 1990 میں لبنان کی 15 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا تھا، اور نصر اللہ کا اصرار تھا کہ اسرائیل بدستور ایک حقیقی خطرہ ہے۔
حزب اللہ کے فلسطینی اتحادی حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد سے، حزب اللہ گروپ لبنان۔ اسرائیل سرحد کے ساتھ تقریباً روزانہ اسرائیلی فوجیوں سے لڑتا رہا ہے۔
سیاسی قوت
نصر اللہ 31 اگست 1960 کو بیروت کے مفلسی کے شکار شمالی مضافاتی علاقے ‘برج حمود’ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک چھوٹے سے جنوبی گاؤں بازوریہ سے تعلق رکھنے والے ایک غریب کریانہ فروش کے نو بچوں میں سے ایک تھے۔
نصراللہ نے عراق میں شیعہ فرقے کے مقدس شہر نجف کے ایک مدرسے میں تین سال تک سیاست اور قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہیں 1978 میں اس وقت وہاں سے نکال دیا گیا جب سنی اکثریتی حکومت نے سر گرم شیعہ کارکنوں کو بے دخل کیا۔
اس کے بعد وہ لبنانی سیاست میں بھر پور طریقے سے شامل ہو گئے اور خانہ جنگی کے دوران شیعہ ملیشیا ‘امل’ میں ابتدائی تجربہ حاصل کیا۔ لیکن وہ حزب اللہ سے وابستگی کے لیے ‘امل’ سے اُس وقت الگ ہو گئے جب اسرائیلی فوجیوں نے 1982 میں بیروت پر حملہ کیا۔
انہوں نے لبنان اور پوری عرب دنیا میں اپنا غیر معمولی مقام اس وقت حاصل کیا جب اسرائیل نے مئی 2000 میں حزب اللہ کے زبردست حملے کے باعث جنوبی لبنان سے اپنی فوجیوں کو واپس بلالیا، جس سے سرحدی پٹی پر اس کا 22 سال کا قبضہ ختم ہوا۔
نصراللہ کی برسوں کی قیادت میں،حزب اللہ یا ’اللہ کی جماعت‘ ایک چھاپہ مار دھڑے سے ملک کی سب سے طاقت ور سیاسی قوت بن چکی گئی۔
لبنان کے بہت سے مقامی شیعہ حزب اللہ کو، خیراتی اداروں کی مدد کرنے، اپنے مضبوط مراکز میں صحت اور تعلیم کی سہولیات بڑھانے اور حامیوں میں سے ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر سراہتے ہیں۔
لیکن منقسم لبنان میں اس تحریک سے بڑے پیمانے پر نفرت بھی کی جاتی ہے، جس میں وہ لوگ شامل ہیں جو فرقہ بندی سے پاک ایک ایسے ملک کا خواب دیکھتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔
نصراللہ کی ذاتی مقبولیت پوری عرب دنیا میں اس کے بعد بڑھ گئی تھی جب اسرائیل کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والی ایک جنگ بندی 2006 میں ختم ہوئی۔
اس کے بعد 2011 سے ان کی مقبولیت کو اس وقت دھچکا لگا جب انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے لیے پڑوسی ملک شام بھیجا۔