لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) رواں برس ستمبر کے دوران دو ہفتے میں لبنان کی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کو اپنے ’کمانڈ سٹرکچر‘ میں یکے بعد دیگرے کئی بڑے دھچکے برداشت کرنے پڑے ہیں۔
17 ستمبر کو حزب اللہ کے کارکنوں کے زیرِ استعمال پیجرز دھماکوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت سے شروع ہونے والا سلسلہ تنظیم کے سینیئر کمانڈرز کو نشانہ بنائے جانے سے ہوتا ہوا تنظیم کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت تک آن پہنچا ہے۔
حسن نصر اللہ جو اب تک اسرائیل کی پہنچ سے باہر تھے، جمعے کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ اس کارروائی کے بعد سامنے آنے والا ایک اہم سوال یہ تھا کہ اسرائیلی فوج نے حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور وہ انھیں حزب اللہ کے سینیئر کمانڈرز کے ہمراہ نشانہ بنانے میں کیسے کامیاب ہوا۔
حزب اللہ کے حفاظتی نظام کی ناکامی
بی بی سی کے نامہ نگار برائے سکیورٹی فرینک گارڈنر نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حسن نصراللہ کو نشانہ بنانا اسرائیل کے لیے ایک سٹریٹجک فیصلہ تھا، وہ گذشتہ کئی برسوں سے روپوش تھے اور اسرائیل کی نظریں ان پر کافی عرصے سے تھیں۔‘
گارڈنر کا کہنا ہے کہ ’حال ہی میں حزب اللہ کے ہزاروں پیجرز اور واکی ٹاکیز کو دھماکے سے اڑا دیا گیا اور یہ قیاس کیا گیا کہ اس کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔
’یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے ان آلات کی سپلائی چین تک رسائی پا کر ان میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا تھا اور یہ تقریباً 15 دن پہلے ہوا تھا۔ اس کے بعد سے جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کس طرح حزب اللہ کی کمان کے ڈھانچے میں اندر تک رسائی میں کامیاب ہوا ہے۔‘
’اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حزب اللہ کے تمام سینیئر کمانڈروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیلی کارروائی نے حزب اللہ کے حفاظتی آلات کو اتنے مؤثر طریقے سے کیسے ناکام بنایا؟‘
اسرائیل حسن نصراللہ تک کیسے پہنچا؟
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں کہا ہے کہ حزب اللہ کے سربراہ کی ہلاکت سے قبل اس نے لبنان، اسرائیل، ایران اور شام میں ایک درجن سے زائد ذرائع سے بات کی تھی۔
اس گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح اسرائیل شیعہ عسکریت گروپ کی سپلائی چین اور کمانڈ سٹریکچر کو تباہ کر پایا ہے۔
ایک ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ حسن نصر اللہ اور حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ 20 سال کی گئی جاسوسی سے حاصل ہونے والا نتیجہ ہے۔ ایک شخص نے اس جاسوسی کو ’شاندار‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیلی حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو اور ان کے قریبی وزرا کے ایک گروپ نے بدھ کو اس حملے کی اجازت دی تھی مگر یہ حملہ اس وقت ہوا جب نتن یاہو وہاں سے میلوں دور نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کر رہے تھے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں ملٹری سروسز کے ڈائریکٹر میتھیو سیویل کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس منصوبے پر کئی برسوں سے کام ہو رہا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ کئی سطحوں پر کیا گیا ہو۔
ان کے مطابق ’اس طرح، یہ مواصلات کے درمیان خفیہ طور پر مداخلت کی طرف اشارہ کرتا ہے. سیٹلائٹ ہو یا خفیہ طور پر لی گئی تصاویر اس میں تصاویر کا تجزیہ بھی شامل ہو سکتا ہے تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انسانی انٹیلی جنس معلومات بھی اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔‘
دوسرے لفظوں میں اس میں زمین پر موجود جاسوسوں کی مخبریاں بھی شامل رہی ہوں گی۔
سنہ 2006 کی حزب اللہ اسرائیل جنگ کے بعد حسن نصر اللہ نے عوامی اجتماعات یا تقریبات میں شرکت کا سلسلہ بند کر دیا تھا۔
ان کی سکیورٹی سے وابستہ ذرائع نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ حسن نصر اللہ حد درجہ محتاط تھے اور ان کی نقل و حرکت بہت محدود تھی، یہاں تک کہ وہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے ہی ملتے تھے۔
اسرائیل نے حسن نصر اللہ کو نشانہ کیسے بنایا؟
اسرائیلی فوج کے تین اعلیٰ افسران نے سنیچر کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ کئی مہینوں سے حسن نصر اللہ کی موجودگی کے مقام کے بارے میں جانتے تھے۔
اسرائیلی رپورٹس کے مطابق نصراللہ کو نشانہ بنانے کا فیصلہ فوری طور پر اور امریکہ کو بتائے بغیر کیا گیا تاکہ دیر نہ ہو جائے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق 17 ستمبر کے پیجر دھماکوں کے بعد حزب اللہ کے سربراہ بہت محتاط ہو گئے تھے کیونکہ یہ شبہ تھا کہ اسرائیل انھیں قتل کرنا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ ان کی تقاریر بھی پہلے سے ریکارڈ کر کے تقریبات میں چند دنوں کے بعد ہی چلائی گئیں۔
اسرائیل نے کہا کہ اس نے جنوبی بیروت میں ایک رہائشی عمارت کے تہہ خانے میں واقع حسن نصر اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر بمباری کر کے اسے نشانہ بنایا۔
اسرائیل کی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کے نو اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو گذشتہ ہفتے کے دوران ہلاک کیا گیا ہے۔
سویڈش ڈیفنس یونیورسٹی میں حزب اللہ کے ایک تجربہ کار ماہر میگنس رینسٹورپ نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ حزب اللہ کے لیے ایک بڑا دھچکا اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔
میگنس کا کہنا ہے کہ ’وہ (اسرائیل) جانتے تھے کہ نصر اللہ اجلاس منعقد کر رہے تھے۔ وہ دیگر کمانڈرز سے مل رہے تھے اور پھر انھوں نے ان پر حملہ کیا۔‘
سنیچر کے روز، اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل نداو شوشانی نے صحافیوں کو بتایا کہ فوج کے پاس حسن نصر اللہ اور دیگر رہنماؤں کے اجلاس کے بارے میں ’ریئل ٹائم‘ معلومات تھیں۔
شوشانی نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیل کو یہ معلومات کیسے ملیں۔ تاہم شوشانی نے بتایا کہ یہ رہنما اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کے لیے ملاقات کر رہے تھے۔
اسرائیل کے ہاتزرم فضائی اڈے کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیچائی لیون نے صحافیوں کو بتایا کہ چند سیکنڈ کے عرصے میں درجنوں بم گرائے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ آپریشن بہت پیچیدہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی کافی عرصے سے کی گئی تھی۔‘
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں ملٹری سروسز کے ڈائریکٹر میتھیو سیویل کا کہنا ہے کہ ’ایک بار جب اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ کی موجودگی کے مقام کی نشاندہی کر لی تو اس کی فضائیہ کے ایف 15 جنگی طیاروں نے مبینہ طور پر 80 بم گرائے جس سے بنکر تباہ ہو گیا۔
ان بموں نے جنوبی بیروت اور دحیہ میں زیر زمین تہہ خانوں کو نشانہ بنایا جہاں حسن نصر اللہ اعلیٰ کمانڈرز سے ملاقات کر رہے تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب واضح کرتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس یونٹس نے حزب اللہ کے سکیورٹی سسٹم تک رسائی پا لی تھی۔ نصر اللہ کی جگہ جلد ہی کوئی لے گا لیکن اس نئے رہنما کو حمایت حاصل کرنے میں برسوں لگیں گے جبکہ ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہو گا۔‘