کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) طالبان حکام نے ملک بھر میں حالیہ حملوں میں ملوث ‘داعش کے اہم ارکان‘ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ طالبان حکومت نے پاکستان پر اس تنظیم کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کی ‘اسپیشل فورسز‘ نے اس ’عسکریت پسند گروپ کے اہم ارکان کو گرفتار کیا ہے جس نے گذشتہ ماہ کابل میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس واقعے میں چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ “خودکش حملہ آور پاکستان میں تربیتی کیمپ سے ٹریننگ لے کر افغانستان میں داخل ہوئے جب کہ معتدد چھاپوں میں گرفتار کیے گئے دیگر افراد بھی حال ہی میں پاکستان سے واپس آئے تھے۔”
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ کارروائیوں کے بعد داعش کو افغانستان سے بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے پاکستان میں “نئے آپریشنل اڈے اور تربیتی کیمپ قائم کر لیے ہیں۔”
انہوں نے الزام لگایا کہ “ان نئے اڈوں سے وہ (داعش) افغانستان کے اندر اور دوسرے ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔”
سن 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال میں عمومی طور پر بہتری آئی ہے تاہم داعش کی علاقائی شاخ ‘دولت اسلامیہ خراسان‘ ان کی حکمرانی کے لیے اہم چیلنج بن کر ابھری ہے۔
’دولت اسلامیہ خراسان‘ نے رواں سال موسم گرما میں کئی مہلک حملے کیے۔
’دولت اسلامیہ خراسان‘ نے مئی میں وسطی بامیان میں حملے کی ذمہ داری لی تھی، جس میں تین ہسپانوی اور تین أفغان ہلاک ہوئے تھے۔ اس نے ستمبر میں دو دیگر حملوں کی ذمہ داری بھی لی تھی، جس میں بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کابل اور اسلام آباد کے رشتے مزید خراب ہونے کا خدشہ
طالبان کے ان تبصروں سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے، جو افغان طالبان کے اقتدار پر کنٹرول کے بعد سے متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ذبیح مجاہد کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
پاکستان ملک میں بڑھتے ہوئے حملوں کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ طالبان کی حکومت وہاں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان، چین، ایران اور روس کا بیان
پاکستان، چین، ایران اور روس نے گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں “افغانستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔”
ان ملکوں نے داعش اور ٹی ٹی پی سمیت کئی عسکریت پسند گروہوں کا ذکر کیا، جو “افغانستان میں مقیم ہیں اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔”
داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی تھی اور یہ اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ سے امریکہ کے انخلا کے دوران ہونے والے ایک بم دھماکے سے سرخیوں میں آئی۔ اس دھماکے میں تقریباً 170 افغان اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ متعدد بین الاقوامی حملوں کا ذمہ دار ہے، جس میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال میں 140 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور ایران میں دو بم دھماکے بھی شامل ہیں، جن میں 90 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
اس گروپ میں افغانستان کی شمالی سرحد پر واقع وسطی ایشیائی ملکوں سے جنگجو بھی شامل ہو رہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ چھاپوں کے دوران گرفتار کیے گئے لوگوں میں ایک تاجک شہری شامل ہے۔