کوپن ہیگن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے ایف پی) ڈنمارک کی پولیس نے بدھ کو کہا کہ وہ دارالحکومت کوپن ہیگن میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب ہونے والے دو دھماکوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
کوپن ہیگن پولیس کے ترجمان جیکب ہینسن نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ دارالحکومت کوپن ہیگن میں اسرائیلی سفارت خانے کے قریب ہونے والے دو دھماکوں کی تحقیقات کر رہی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کوپن ہیگن پولیس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا، “کوئی بھی زخمی نہیں ہوا ہے اور ہم جائے وقوعہ پر ابتدائی تحقیقات کر رہے ہیں۔”
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی ڈنمارک میں اسرائیل کے سفارت خانے کے باہر دو دھماکوں کی خبر دی ہے۔
کوپن ہیگن پولیس کے مطابق “علاقے میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے ساتھ دھماکے کے ممکنہ تعلق کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔”
ہینسن نے کہا کہ “یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا دھماکوں اور اسرائیلی سفارت خانے کے درمیان کوئی تعلق ہے۔”
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کی بھاری نفری نے بڑے علاقے کو محاصرے میں لے لیا ہے۔ علاقے کی چھان بین جاری ہے۔
اسرائیلی سفارت خانہ نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی ردعمل نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی سفارتخانہ ایران، تھائی لینڈ، ترکی اور رومانیہ سمیت متعدد غیر ملکی مشنوں میں شامل ہے، جو ڈنمارک کے دارالحکومت کے شمال میں ہیلرپ کے مضافاتی علاقے میں ایک ہی جگہ واقع ہیں۔
ڈنمارک کی وزیر اعظم کا بیان
یہ دھماکے ایسے وقت میں ہوئے جب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے، ایران نے اسرائیل کی سرزمین پر میزائل فائر کیے ہیں اور اسرائیل نے ایران کو جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے ڈنمارک کی وزیر اعظم نے فلسطینی تنازعے کے حل کے لیے تجویز کیا ہے کہ عالمی برادری جس طرح دیگر کئی مسائل کو حل کرنے کے لیے ماضی میں طاقت کا استعمال کر چکی ہے، اسی طرح فلسطینی ریاست قائم کرنے کے لیے بھی طاقت کا استعمال کرے۔ کیونکہ پوری دنیا اس تنازعے کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ڈنمارک کی وزیرِ اعظم میٹ فریڈرکسن نے ڈنمارک کی خبر رساں ایجنسی رٹزاؤ کو بتایا کہ “جو کچھ ہم وہاں ہوتا دیکھ رہے ہیں، اس کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور چیزوں کو جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل — ایک اسرائیلی، ایک فلسطینی — “صرف اس صورت میں کیا جا سکتا ہے اگر عالمی برادری کسی وقت یہ اعلان کر دے کہ ہمیں اب اسے طاقت کے ذریعے نافذ کرنا ہو گا۔”
انہوں نے مزید کہا، “بین الاقوامی برادری نے دیگر تنازعات اور جنگوں میں مداخلت کی ہے اور کچھ نافذ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔”