نیو یارک (ڈیلی اردو) اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ‘ناپسندیدہ’ قرار دیتے ہوئے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو “ناپسندیدہ’ قرار دیتے ہوئے اُن کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ خارجہ اسرائیل کاٹز نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ انتونیو گوتریس نے منگل کو ایران کے اسرائیل پر حملے کی کھل کر مذمت نہیں کی۔
اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے سفاکانہ ایرانی حملے کی مذمت کی تاہم انتونیو گوتریس ایسا کرنے میں ناکام رہے، لہذٰا وہ اسرائیلی سرزمین پر قدم رکھنے کے مستحق نہیں ہیں۔”
واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ “مشرقِ وسطیٰ میں تازہ ترین حملوں سے کشیدگی بڑھے گی۔”
ایران نے 31 جولائی کو ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔
اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔ حماس اور ایرانی حکام نے فوری طور پر اس حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا۔
اس کے بعد ایک اہم پیش رفت میں اسرائیل نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ہلاک کیا ہے اور جنوبی لبنان میں زمینی فوج بھیجی ہے جسے اس نے محدود آپریشن کہا ہے۔
ایران نے بقول اس کے اسرائیلی کارروائیوں کے جواب منگل کو اسرائیل پر تقریبأ 200 میزائل فائر کیے۔
ایران کی اس کارروائی کی امریکہ سمیت متعدد ملکوں نے مذمت کی ہے۔
اسرائیل حماس جنگ کا آغاز ایک سال قبل 7 اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر عسکری گروپ حماس کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد ہوا تھا جس میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے اور تقریباً ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جن میں سے 100 کے قریب عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ان میں سے 65 یرغمال زندہ ہیں۔
اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں اب تک 41000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 جنگجو بھی تھے، تاہم اس نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت نہیں دیے۔
غزہ اور ملحقہ شہروں اور قصبوں کی زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ بے گھر ہو گئے اور پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود علاقے میں لڑائی جاری ہے۔
قطر غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر کام کرنے والے ثالثوں میں سے ایک ہے، اگرچہ اس وقت بات چیت تعطل کا شکار ہے۔