واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو رپورٹرز کے اس سوال پر کہ آیا ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے جواب کی صورت میں وہ ایرانی تنصیبات پر کسی حملے کی حمایت کرتے ہیں، کہا ہے کہ ان کا جواب نفی میں ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بائیڈن کی جانب سے یہ تبصرہ ایسے موقع پر آیا جب جی سیون ممالک کے سربراہان نے بدھ کے روز ایک فون کال کے دوران ایران پر مزید پابندیوں کے بارے میں غور کیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں اسرائیل اور اس کے عوام کے ساتھ امریکہ کی حمایت اور یک جہتی کو دہرایا۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ہمارے اقدامات دفاعی نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دوں کہ ایرانی حکومت کو اس کے اقدامات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور ہم ایران یا اس کے پراکسیز کو امریکہ یا اسرائیل کے خلاف مزید کارروائیاں کرنے کے خلاف سختی سے خبردار کرتے ہیں۔
تھامس گرین فیلڈ نے کہا کہ سلامتی کونسل کو ایران کے حملے کی مذمت کرنی چاہیے اور ایران کی طاقت ور اسلامی گارڈز کور پر اس کی کارروائیوں کے سلسلے میں ’سنگین نتائج ‘ کا اطلاق کرنا چاہیے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ، ’یہ ہماری ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، سلامتی کونسل کے ارکان کے طور پر، آئی آر جی سی پر دہشت گردی کی حمایت کرنے اور اس کونسل کی بہت سی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر اضافی پابندیاں عائد کریں‘۔
ایران نے 31 جولائی کو ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر لگایا ہے۔
اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔ حماس اور ایرانی حکام نے فوری طور پر اس حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا۔
اس کے بعد ایک اہم پیش رفت میں اسرائیل نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ گروپ کے رہنما حسن نصر اللہ کو ہلاک کیا ہے اور جنوبی لبنان میں زمینی فوج بھیجی ہے جسے اس نے محدود آپریشن کہا ہے۔
ایران نے بقول اس کے اسرائیلی کارروائیوں کے جواب منگل کو اسرائیل پر تقریبأ 200 میزائل فائر کیے۔
ایران کی اس کارروائی کی امریکہ سمیت متعدد ملکوں نے مذمت کی ہے۔
اسرائیل حماس جنگ کا آغاز ایک سال قبل 7 اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی حصے پر عسکری گروپ حماس کے ایک بڑے اور اچانک حملے کے بعد ہوا تھا جس میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے اور تقریباً ڈھائی سو کو یرغمال بنا لیا گیا تھا جن میں سے 100 کے قریب عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں۔ اسرائیلی حکام کا خیال ہے کہ ان میں سے 65 یرغمال زندہ ہیں۔
اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی کارروائیوں میں اب تک 41000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فلسطین کے محکمہ صحت کے مطابق اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17000 جنگجو بھی تھے، تاہم اس نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت نہیں دیے۔
غزہ اور ملحقہ شہروں اور قصبوں کی زیادہ تر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ بے گھر ہو گئے اور پناہ اور خوراک کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود علاقے میں لڑائی جاری ہے۔
قطر غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے پر کام کرنے والے ثالثوں میں سے ایک ہے، اگرچہ اس وقت بات چیت تعطل کا شکار ہے۔