اسلام آباد(ڈیلی اردو)ایک مقامی اخبار میں دعویٰ کیا گیا کہ توہین مذہب کے مقدمات میں نامزد ملزمان کے 40 سے زائد خاندانوں نے وفاقی حکومت سے معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔
دی نیوز کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ عثمان وڑائچ اہل خانہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسپیشل برانچ نے جنوری 2024 میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ایک گروہ ملک میں سرگرم ہے اور معصوم لوگوں کو اپنے مذموم عزائم سے پھنس رہا ہے۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ’یہ رپورٹ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں، آئی جیز اور ڈی جیز سمیت تمام متعلقہ حلقوں کو بھیج دی گئی۔ “ہم نے کابینہ اور داخلہ ڈویژن، انسانی حقوق کے ڈویژن، اور یہاں تک کہ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی لکھا۔ ان رپورٹس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
عثمان وڑائچ نے کہا کہ ہمارے پاس اسپیشل برانچ کی رپورٹ اور ایف آئی اے کے سابق ڈی جی سید کلیم امام کا وائس آف امریکہ کو دیا گیا انٹرویو ہے، جو اسپیشل برانچ کے نتائج کی تصدیق کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ گروپ کیسے کام کرتا ہے، اگر وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور آزاد کمیشن کی طرف سے ان کی توثیق ہوتی ہے، تو متاثرہ خاندان اس فیصلے کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ملزمان کو کیس سے بری کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’ان الزامات کی وجہ سے کم از کم 400 خاندان مشکلات کا شکار ہیں، ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، اور انہوں نے مدعا علیہان کو نوٹس بھیجے۔ وڑائچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ گرفتاری سے پہلے اور بعد میں تشدد کی وجہ سے ایک خاتون سمیت پانچ افراد حراست کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
علاوہ ازیں ایک ملزم کے والد نے بھی پریس کانفرنس میں بات کی اور کہا کہ اس کا بیٹا پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس فزکس کا طالب علم ہے، اور ایک خاتون نے واٹس ایپ کے ذریعے اس سے رابطہ کیا اور اسے نوکری تلاش کرنے میں مدد کرنے کو کہام وہ ایک ہفتہ تک بات کرتے رہے جب اس نے اسے ایک گستاخانہ تصویر بھیجی۔ اس نے پوچھا کہ اس نے اسے تصویر کیوں بھیجی، اور اس نے جواب دیا کہ اس نے کچھ نہیں بھیجا، شاید کسی اور نے اس کا فون استعمال کیا ہو۔ جب اس نے گستاخانہ تصویر اسے واپس بھیجی تو اس نے اس کی اطلاع ایف آئی اے کو دی، اور اسے گرفتار کر لیا گیا، اور اب وہ مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔
پریس کانفرنس کے بعد اہل خانہ کی جانب سے پریس کلب کے باہر پرامن احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔ اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک مشکوک گینگ نوجوانوں کو توہین مذہب کے کیسوں میں پھنسا رہا ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد میں ایف آئی اے سے رجوع کر کے ان سے رقم بٹور رہا ہے۔