پاکستان: کیا ذاکر نائیک کا دورہ مسلکی کشیدگی کو ہوا دے گا؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ ڈوئچے ویلے) متنازعہ مبلغ ذاکر نائیک کے دورہ پاکستان نے انتہا پسندانہ جذبات میں اضافے پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس سے بھارت کے غصے میں اضافہ ہونے کی بھی بات کہی جا رہی ہے، جہاں وہ مبینہ نفرت انگیز تقریر کے لیے مطلوب ہیں۔

بھارتی اسلامی مبلغ ذاکر نائیک اس ہفتے کراچی، اسلام آباد اور لاہور سمیت بڑے شہروں میں لیکچر دینے کے لیے ایک ماہ کے طویل دورے پر پاکستان پہنچے۔

اٹھاون سالہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سن 1990 کی دہائی کے اوائل سے ہی ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں اور مودی حکومت نے تو ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر کے الزامات کے تحت کئی کیسز بھی دائر کر رکھے ہیں۔

مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست جماعت بی جے کی حکومت نے ان پر تقاریر اور لیکچرز کے ذریعے “مختلف مذہبی طبقات کے درمیان دشمنی اور نفرت کو فروغ دینے” کا الزام لگایا ہے۔

ذاکر نائیک نے فی الوقت ملائیشیا میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور وہ بھارتی حکومت کے تمام الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھارت میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور “اسلام کے دشمن” انہیں بے جا طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔

تین دہائیوں میں ذاکر نائیک کا یہ پہلا پاکستان کا دورہ ہے۔ آخری بار انہوں نے سن 1992 میں وہاں کا سفر کیا تھا۔ ان کا یہ دورہ پاکستانی حکومت کی دعوت پر ہو رہا ہے، جس سے بہت سے کارکنوں اور ناقدین کو تشویش بھی ہے، کیونکہ ان پر بھارت سمیت بنگلہ دیش، سری لنکا اور برطانیہ جیسے ممالک نے سخت گیر مذہبی خیالات کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔

پاکستان میں نیوکلیئر ماہر طبیعیات اور سماجی کارکن پرویز ہودبھائی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “مجھے افسوس ہے لیکن صدمہ نہیں کہ ذاکر نائیک کو بطور سرکاری مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ ریاست آگ میں مزید ایندھن ڈال رہی ہے۔”

ذاکر نائیک کے اثر و رسوخ پر بحث

بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ کی حکومت نے ذاکر نائیک کے ٹیلی ویژن چینل، پیس ٹی وی کو اس وقت معطل کر دیا تھا، جب میڈیا رپورٹس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ وہ افراد جنہوں نے سن 2016 میں ڈھاکہ میں ہولی آرٹیزن بیکری پر حملہ کیا تھا، وہ ان کے مداح اور عقیدت مند تھے۔

اس حملے میں 29 افراد ہلاک ہوئے تھے اور داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے ریسرچ فیلو امیت رنجن ذاکر نائیک کو “ایک ایسا بنیاد پرست اسلامی مبلغ بتاتے ہیں، جس کی تقاریر اور پیروی نے بنگلہ دیش اور مالدیپ میں مشکلات اور تناؤ کو جنم دیا۔”

رنجن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “پاکستان کا ریاستی مہمان ہونے سے ملک کے سماجی اور مذہبی تانے بانے کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔”

لیکن ایک سیاسی اور سماجی مبصر، قرۃ العین شیرازی کا استدلال ہے کہ ذاکر نائیک کا دورہ، پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

شیرازی نے زور دے کر کہا، “توہین مذہب سے متعلق واقعات کی جاری لہر کے دوران، نائیک نے یہ کہہ کر کسی حد تک ایک نیا تناظر دیا ہے کہ ‘کسی کو مبینہ توہین رسالت کے معاملے میں قتل کرنے کے بجائے، قانون کو اس بارے میں اپنا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کو بھی مسترد کیا ہے۔”

بھارت کے ساتھ کشیدگی کے درمیان نائیک کا دورہ تشویش کا باعث

کچھ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ نائیک کا دورہ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

امیت رنجن کہتے ہیں کہ ماضی میں، نائیک کی تقریروں نے لوگوں کو مختلف گروہوں کے خلاف تشدد کرنے یا مختلف عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف اکسانے کی ترغیب دی ہے۔

نائیک کا دورہ پاکستان ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات شدید کشیدہ ہیں۔

پرویز ہودبھائی کی دلیل ہے کہ “نفرت انگیز تقاریر کرنے والے کے طور پر، ذاکر نائیک پر بھارت سمیت کئی ممالک نے پابندی لگا دی ہے۔ انہیں شاہی استقبالیہ دیتے ہوئے، پاکستان یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ بنیاد پرستی کو قبول کرنے کے لیے پرعزم ہے اور عالمی رائے کو ایک طرف رکھنے کے لیے تیار ہے۔”

تاہم شیرازی کہتی ہیں، “مجھے نہیں لگتا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوں گے کیونکہ یہ پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ نائیک اپنی تقریروں میں کشمیر کے تنازعہ کا ذکر نہ کرنے کے سلسلے میں کافی محتاط رہے ہیں، جو شاید یہ بتاتا ہے کہ، وہ ایسا کوئی تنازعہ پیدا نہیں کرنا چاہتے جس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہو۔

کیا مسلکی کشیدگی میں اضافہ ہو گا؟

بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نائیک کی تقاریر سے پاکستان میں انتہا پسندانہ جذبات مزید بھڑک سکتے ہیں۔

رنجن کہتے ہیں، “پاکستان ایک کثیر مسلکی اور انتہائی مذہبی معاشرہ ہے، جہاں کچھ لوگ اسلام کے مختلف برانڈز کی پیروی کرتے ہیں۔” نائیک کے خیالات مختلف نظریات کی وجہ سے پاکستان میں کچھ مخصوص فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ تعلقات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔”

نائیک ماضی میں اپنے بعض متنازعہ تبصروں پر معافی مانگ چکے ہیں۔ اگست 2019 میں، ملائیشیا کی پولیس نے ان پر عوامی طور پر بولنے پر پابندی لگا دی تھی اور ان کے تبصروں کے حوالے سے ان سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔

تاہم شیرازی کہتی ہیں کہ وہ نہیں مانتی کہ نائیک پاکستان کے دورے کے دوران مسلکی مسائل پر بات کریں گے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، “میرے خیال میں ان کا دورہ پاکستان اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ وہ اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں ماضی میں بعض گروہوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں