مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی: خامنہ ای نے خطاب کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کہ وہ اسرائیلی حملوں سے خوفزدہ نہیں

تہران (ڈیلی اردو /بی بی سی)آیت اللہ خامنہ ای کا آج کا خطبہ ان کے آخری جمعہ کے اس خطبے سے ملتا جلتا تھا، جو چار سال قبل امریکہ کے ہاتھوں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے نتیجے میں عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے کے بعد دیا گیا تھا۔

اس وقت بھی امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ کا خدشہ تھا۔

بظاہر خامنہ ای نے تہران کے مرکز میں دیے گئے اس خطاب سے باہر کی دنیا کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ملک میں موجود عوام کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے ان رپورٹس کی تردید کی ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کے قتل کے بعد عوام کے سامنے آنے سے خوفزدہ تھے۔

یہ خطبہ بیرونی دنیا کو ایرانی حکومت میں اتحاد دکھانے کی ایک کوشش بھی تھی۔ خطبے کے دوران نو منتخب صدر مسعود پیزشکیان اور ایرانی اسٹیبلشمنٹ کی دیگر اعلیٰ شخصیات موجود تھیں۔ پیزشکیان کو حال ہی میں اس تجویز کہ ایران اور اسرائیل کو کبھی نہ کبھی دشمنی ختم کرنا ہو گی، پر سخت گیر افراد کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایسی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیا کہ خطے میں ایران کی اپنی پراکسیوں جنھیں وہ ’مزاحمت کا محور‘ کہتا ہے، کے لیے ایران کی حمایت اسرائیل کی حالیہ کارروائیوں سے متاثر ہو گی۔

انھوں نے ایک بار پھر اسرائیل کے خلاف حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کا دفاع کیا ہے۔ خطے میں دیگر مسلم ممالک کے کئی رہنماؤں نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے۔

رہبرِ اعلیٰ نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کے قتل کے باوجود ایران اپنی پراکسیوں کے ذریعے اسرائیل کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں