طالبان حکومت میں افغان صحافیوں سے زیادتیوں کا سلسلہ جاری

کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) افغان صحافیوں نے طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے تشدد اور من مانی حراست کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کو سخت کرنے سمیت سرکاری اہلکاروں کی طرف سے بدسلوکی کے سینکڑوں واقعات کی اطلاع دی ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ انہیں عسکریت پسند گروپوں کے حملوں کی خبریں شائع کرنے یا خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں لکھنے کے لیے اکثر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور کچھ رپورٹوں کے مطابق انہیں داعش کے عسکریت پسندوں کے ساتھ ہی جیل کی کوٹھریوں میں رکھا جاتا ہے۔

شمالی افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، جنہیں حال ہی میں حراست میں لیا گیا تھا اور مارا پیٹا گیا تھا، نے کہا، “کسی اور پیشے کی اتنی تذلیل نہیں کی جاتی۔”

انہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا “میں اور میرے دوست اب اس پیشے کو جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ روز بروز نئی پابندیوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا “اگر ہم حملوں یا خواتین سے متعلق موضوعات کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو ہمیں فون کے ذریعے دھمکیوں یا حراست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔”

صحافیوں کی تعداد میں مسلسل کمی

جب طالبان نے 2021 میں اقتدار پر دوبارہ قبضہ کیا تو افغانستان میں 8,400 میڈیا ملازمین تھے جن میں 1,700 خواتین تھیں۔ میڈیا انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق، اب اس پیشے میں صرف 5,100 افراد رہ گئے ہیں، جن میں خواتین کی تعداد صرف 560 ہے۔

افغانستان میں صحافیوں کی ایک انجمن کے ایک عہدیدار سمیع اللہ (سکیورٹی وجوہات کی بنا پر جن کا نام تبدیل کیا گیا ہے) نے کہا، “سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے صحافیوں کے خلاف، زیادتیوں کے تقریباً 450 واقعات درج کیے گئے ہیں، جن میں گرفتاریاں، دھمکیاں، من مانی حراست، جسمانی تشدد، اذیت شامل ہیں۔”

طالبان حکام نے ان خبروں پر تبصرہ کرنے کی متعدد درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ تاہم نائب وزیر اطلاعات حیات اللہ مہاجر فراہی نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ میڈیا کو افغانستان میں اس شرط پر کام کرنے کی اجازت دی گئی کہ وہ “اسلامی اقدار، ملک کے اعلیٰ مفاد، اس کی ثقافت اور روایات” کا احترام کریں۔

پابندیوں کا سلسلہ جاری

میڈیا ایگزیکٹیوز نے اے ایف پی کو بتایا کہ ستمبر میں سیاسی ٹاک شوز پر نئے ضابطے نافذ کردئے گئے۔ ان میں مہمانوں کا انتخاب طالبان کی منظور شدہ فہرست سے کرنا اور صرف ان موضوعات پر گفتگو کرنا شامل ہیں جن کی منظوری طالبان حکام نے دی ہے جب کہ حکومت پر تنقید ممنوع ہے۔ شوز کو لائیو نشر نہیں کیا جانا چاہیے، تاکہ ریکارڈنگ کی جانچ پڑتال کی جا سکے اور “کمزور پوائنٹس” کو حذف کیا جا سکے۔

ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن اسٹیشن آر ٹی اے اب خواتین کو بطور صحافی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

جنوبی صوبہ ہلمند میں ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خواتین کی آواز پر پابندی ہے۔ سوشل نیٹ ورکس پر صحافیوں کی نگرانی جاری ہے اور پریس خود سنسر شپ پر مجبور ہے۔

لندن میں قائم افغانستان انٹرنیشنل چینل، جس کے لیے اب کسی افغان کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، نے ستمبر میں کابل پر الزام لگایا کہ وہ اس کی فریکوئنسی کو جام کر رہا ہے۔

“اچھائیوں کے فروغ اور برائی کی روک تھام” کے بارے میں ایک حالیہ سخت اسلامی قانون نے صحافیوں کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ یہ قانون انسانوں اور جانداروں کی تصویریں اتارنے اور خواتین پرعوام میں اونچی آواز میں بات کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں