پشاور(ڈیلی اردو/ وی او اے )پاکستان کی وفاقی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ(پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں کو ملک اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے اتوار کو جاری کردہ اعلامیہ میں کہا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قانون 1997 کے تحت اسے کالعدم تنظیموں کی آفہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پی ٹی ایم تقریباً ساڑھے چھ برس قبل قائم ہوئی تھی اور اس کے قیام کا مقصد پشتونوں کو درپیش سیکیورٹی، معاشی اور انتظامی مسائل پر آواز اٹھانا بتایا جاتا ہے۔
وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم پر ایک ایسے وقت پابندی عائد کی ہے جب آئندہ ہفتے اس کے زیر اہتمام پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلعے خیبر میں پختون جرگہ منعقد ہونے والا ہے۔
پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو شروع ہونے والے تین روزہ پختون قومی جرگے کے لیے خیبر کے تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی میں حکومتی رکاوٹوں کے باوجود تیاریاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے دوران منگل اور بدھ کی درمیانی شب پشاور اور خیبر کے پولیس اہلکاروں نے ایک مشترکہ کارروائی میں جمرود کے مقام پر انتظامات کے لیے لگوائے گئے خیموں کو اکھاڑ کر وہاں موجود پی ٹی ایم کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا تھا۔ پولیس نے پی ٹی ایم کے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی تھی۔
بدھ کو بھی پولیس اہلکاروں اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کے درمیان دن بھر آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد رات کے وقت سے انتظامات کو دوبارہ شروع کیا گیا تھا۔
پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دینے کے حکومت کے فیصلے پر تاحال تنظیم کے سربراہ منظور پشتین یا کسی اور عہدے دار کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم منظور پیشتین نے پشتون جرگے کے منتظمین کے خلاف حکومتی اقدامات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جرگے کے منتظمین کےخلاف ریاستی جبر و بربریت کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اب یہ سلسلہ پختونخوا سے بلوچستان کے پختون اضلاع تک پہنچ گیا ہے۔
منظور پشتین کے مطابق پشتون جرگے کے گرفتار کیے گئے رہنماؤں اور منتظمین کی تعداد 200 سے زائد ہے۔
’پشتون یہ فیصلہ قبول نہیں کریں گے‘
البتہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سے منسلک وکلا تنظیم کے رھنما طارق افغان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اس فیصلے مذمت کی ہے اور سے غیر دانش مندانہ اقدام قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان عرصہ دراز سے ان سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے جو عدم تشدد پر کاربند ہو کر اپنے نصب العین کے حصول کے لیے پر امن سیاسی جدوجہد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب ایسی تنظیموں کو کھلم کھلا چھٹی دی جا رہی ہے جو پرتشدد کارروائیوں اور سرکاری و نجی املاک تباہ کرنے میں مصروف رہی ہیں۔
طارق افغان نے کہا کہ پی ٹی ایم پر پابندی ایک ایسے وقت لگائی گئی ہے جب چند ہی دنوں میں اسی تنظیم کے زیر اہتمام دنیا بھر کے پشتونوں کا جرگہ منعقد ہو رہا ہے۔
ان کے بقول پشتون کسی بھی طور پر اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔
پی ٹی ایم سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ منظور پشتین اب دیگر ساتھیوں کے ساتھ صلاح مشورے کر رہے ہیں۔ ان کے بقول زیادہ تر ساتھی انہیں وفاقی حکومت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اس کی مرکزی قیادت کسی بھی صورت 11 اکتوبر کے پختون قومی جرگے کی معطلی یا اسے ملتوی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے بھی جمعرات کو پی ٹی ایم کے کارکنوں کو گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے بھی مبینہ طور پر جاری کیے گئے بیان میں پی ٹی ایم کے زیرِ اہتمام پختون قومی جرگہ کی حمایت کی ہے۔
پی ٹی ایم کا پس منظر
جنوری 2018 میں کراچی پولیس کے ایک مبینہ مقابلے میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت پر لاکت کے رد عمل سامنے آیا تھا جس کے بعد منظور پشتین کے سربراہی میں بننے والی اس تنظیم پی ٹی ایم نے پختون نوجوانوں کو درپیش مسائل حل کرنے اور انہیں درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جنوری 2018 سے لے کر اب تک اس تنظیم میں شامل بہت سے افراد بالخصوص منظور پشتین اور ان کے قریبی ساتھیوں سابق ممبران قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے
سابق رکنِ قومی اسمبلی علی وزیر اب بھی جیل میں ہیں جب کہ محسن داوڑ زندگی کو درپیش خطرات کے باعث بیرون ملک چلے گئے ہیں۔
محسن داوڑ کی قیادت میں پشتون تحفظ تحریک کے متعدد رہنماؤں نے پی ٹی ایم سے الگ ہو کر لگ بھگ دو ڈھائی سال قبل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اور پارٹی قائم کی تھی۔ مگر اس پارٹی کو 2024 کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق محسن داوڑ کے الگ ہونے کے بعد سے پی ٹی ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔