تل ابیب + غزہ (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/اے ایف پی/رائٹرز) اسرائیل نے اتوار کی صبح وسطی غزہ میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جہاں کم از کم 19 افراد مارے گئے۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر نے اسرائیل کو غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اتوار کی صبح اسرائیل نے غزہ کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جہاں بے گھر افراد وسطی قصبے دیر البلاح کے مرکزی ہسپتال کے قریب پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسی قصبے کے قریب ایک اسکول پر حملے میں مزید چار افراد ہلاک ہو گئے۔ وہاں بھی بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے بغیر کوئی ثبوت فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں حملوں میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مقامی صحافی نے الاقصیٰ شہداء ہسپتال کے مردہ خانے میں لاشوں کی گنتی کی اور اس کے مطابق مسجد میں ہلاک ہونے والے تمام افراد مرد تھے۔ اس حملے میں ایک شخص زخمی بھی ہوا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اتوار کو اسرائیلی فوجیوں نے شمالی غزہ کے جبالیہ علاقے کو ایک مرتبہ پھر گھیرے میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق اس کی انٹیلی جنس نے اس علاقے میں ”حماس کی طرف سے اپنی آپریشنل صلاحیتوں کو دوبارہ منظم بنانے کی کوششوں‘‘ کا پتہ لگایا تھا۔
اسرائیل نے غزہ میں اپنی کارروائیاں ایک ایسے وقت میں تیز کی ہیں، جب سات اکتوبر کو اسرائیل حماس جنگ کا ایک برس مکمل ہونے والا ہے۔ گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 12 سو افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 41,825 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کا قابل اعتماد قرار دیتی ہے۔
اسرائیل کی لبنان میں شدید کارروائیاں
لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسرائیل نے گزشتہ شب بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں 30 سے زائد حملے کیے، جو 23 ستمبر کے بعد سب سے شدید بمباری تھی۔ اس ایجنسی کے مطابق اسرائیلی اہداف میں بیروت ہوائی اڈے کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ایک گیس اسٹیشن اور طبی سامان کیلئے استعمال ہونے والا ایک گودام بھی شامل تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے بیروت میں اُس عمارت کو بھی نشانہ بنایا ہے، جسے ماضی میں حزب اللہ کے زیر انتظام نشریاتی ادارہ المنار استعمال کیا کرتا تھا۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق گزشتہ رات کے اسرائیلی حملوں کے بعد دھماکوں کا ایک طویل سلسلہ بھی شروع ہوا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گولہ بارود کے مقامات بھی نشانہ بنے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جب سے لبنان میں ٹارگٹڈ زمینی آپریشن شروع کیا ہے، تب سے حزب اللہ کے تقریباً 440 جنگجوؤں کو ”زمینی اور فضائی حملوں میں‘‘ نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ لبنان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر اس ملک میں 23 ستمبر سے حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی حملوں میں 11 سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
‘ایران پر حملے کی تیاری‘
دوسری جانب ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ اسرائیلی فوج ایران کے حملے کا ”جواب دینے کی تیاری کر رہی ہے۔‘‘
دریں اثنا ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی نے باخبر ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے ممکنہ اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے ایک منصوبہ تیار کر لیا ہے۔
غزہ میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں پر پابندی کا مطالبہ
دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے ”غزہ میں استعمال کے لیے ہتھیاروں کی برآمدات کو روکنے‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں کشیدگی میں اضافے سے بچنے کے لیے اس کی فوری ضرورت ہے۔ صدر ماکروں کا کہنا تھا، ”ترجیح یہ ہے کہ ہم غزہ میں لڑنے کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دیں۔‘‘
انہوں نے یہ تبصرے فرانس انٹر ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیے، جو منگل کو ریکارڈ کیا گیا تھا اور ہفتے کو نشر کیا گیا۔ تاہم ماکروں نے یہ بھی کہا کہ فرانس اسرائیل کو کوئی ہتھیار فراہم نہیں کرتا۔ صدر ماکروں نے غزہ اور لبنان دونوں میں ہی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے فرانسیسی صدر کو نام لے کر مخاطب کیا اور ان کے اس طرح کے مطالبات کو ”شرمناک‘‘ قرار دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ”جیسا کہ اسرائیل ‘ایران کی قیادت میں دہشت گرد تنظیموں‘ کا مقابلہ کر رہا ہے، تمام مہذب ممالک کو مضبوطی سے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘ نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا، ”اس کے باوجود صدر ماکروں اور دیگر مغربی رہنما اب اسرائیل کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں شرم آنی چاہیے۔‘‘
تاہم آج صدر ماکروں کے دفتر سے ایک نیا بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ”فرانس اسرائیل کا ناقابل شکست دوست ہے۔ فرانس اور اسرائیل کے درمیان دوستی میں مسٹر نیتن یاہو کے الفاظ ضرورت سے زیادہ اور غیر متعلقہ ہیں‘‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”ہمیں سفارتی حل کی طرف واپس آنا چاہیے۔‘‘