لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) کئی دنوں سے مشرق وسطیٰ کا بیشتر حصہ سانسیں روکے بیٹھا ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ اور حماس کے سیاسی ونگ کے رہنماؤں کے قتل کے جواب میں ایران نے ایک ہفتہ قبل اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
حملے کے فوراً بعد اسرائیل نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ اُسے اِس حملے کی ’بھاری قیمت چکانی‘ پڑے گی۔
تو اس میں اتنی تاخیر کیوں؟ اور اسرائیل کب اور کیسے جوابی حملہ کرے گا؟
تاخیر کی ایک جزوی وجہ اسرائیلی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی آپس میں اور اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ کے ساتھ ہونے والی بات چیت ہے۔
یہ مذاکرات صرف حملے کے ممکنہ ہدف کے تعین کے بارے میں نہیں ہیں جن میں ایران کی تیل کی تنصیبات سے لے کر پاسداران انقلاب کے اڈوں تک اور بیلسٹک میزائل فیکٹریوں سے لے کر جوہری تنصیبات شامل ہیں۔ اس بات چیت میں اس جوابی حملے کے ممکنہ اثرات اور ایران کے ردعمل کے بارے میں بھی غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس اس وقت بڑے پیمانے پر ایک ایسی جنگ شروع کرنا نہیں چاہتا جو امریکی صدارتی انتخابات سے صرف ایک ماہ قبل اس کی افواج کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور نہ ہی وہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کا خواہاں ہے۔
بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ جمعہ کو یہودیوں کے نئے سال کی تعطیلات کے ختم ہوتے ہی اسرائیل جوابی حملہ کردے گا۔
جب کہ کئی افرد کا اندازہ تھا کہ اسرائیل پیر کے روز ایران کے حمایت یافتہ حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کو ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر جوابی کارروائی کرے گا۔ جو بھی ہو اتنا تو یقینی ہے کہ اسرائیل حملہ ضرور کرے گا۔