برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) سات اکتوبر کے واقعات کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والی مجوزہ بات چیت روک دی جس کی وجہ سے یہ ممکنہ معاہدہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کی بات چیت کے لیے ایک معاون ذریعہ بن گیا ہے۔
جرمن تھنک ٹینک سی اے آر پی او کے سینئر محقق سیباستیان سنز نے ڈی ڈبلیو کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ 7 اکتوبر کے واقعات نے سماجی سطح پر فلسطین حمایتی یکجہتی کو بھی پھر سے جلا بخشی۔
انہوں نے مزید کہا کہ، ” تاہم اسرائیل اور حماس کی جنگ کو سیاسی اور اقتصادی طور پر، سعودی مملکت کی پرعزم تبدیلی کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سنز نے کہا، اس کے نتیجے میں، سعودی سیاست گزشتہ ایک سال سے سفارتی توازن پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔‘‘
لبنان کیلئے یہ ایک سال کیسا رہا؟
اسرائیل پر حماس کے حملے کے فوراً بعد، لبنان کے حزب اللہ، جسے یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے، کے بااثر مسلح ونگ نے اسرائیل کے شمال میں حملے کرنا شروع کر دیے تھے۔
یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات میں مشرق وسطیٰ کی محقق کیلی پیٹیلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” شروع میں، اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے اور لبنان کو اس میں گھسیٹنے کے لیے حزب اللہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود 7 اکتوبر 2023 ء کے بعد سے لبنان میں حزب اللہ کی حمایت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔‘‘
کیلی پیٹیلو کے خیال میں، بہت سے لبنانی غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل اور بین الاقوامی سفارت کاری میں نتائج کی کمی سے ناراض ہیں۔
پیٹیلو نے کہا ” وہ حزب اللہ کو فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی واحد ضامن کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔‘‘
تاہم، تقریباً ایک سال کے بعد جسے تجزیہ کار ”محدود لڑائی‘‘ کہتے ہیں، ستمبر میں اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے کئی کمانڈروں کی ہلاکت اور اکتوبر کے اوائل میں جنوبی لبنان میں زمینی حملوں کے ساتھ ہی صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
اردن میں گزشتہ سال کیسا رہا؟
ہمسایہ ملک اردن، جس نے 1994ء میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، گزشتہ ایک سال سے سیاسی کشمکش سے دوچار ہے۔
پیٹیلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،” 7 اکتوبر کے بعد سے، اردن نے فلسطینی کاز کے لیے مضبوط گھریلو حمایت اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔‘’
اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور ان کی اہلیہ ملکہ رانیہ، جو خود فلسطینی نژاد ہیں، بارہا کہہ چکی ہیں کہ وہ مزید فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے یہاں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
پیٹیلو کا کہنا ہے کہ اس سے جہاں فلسطینی کاز کو خطرہ لاحق ہو گا وہیں یہ امن معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی بھی ہے۔
تجزیہ کار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”تاہم اب، نہ صرف لبنان بلکہ مغربی کنارے میں بھی ممکنہ نئے محاذ کھلنے کے بعد، اردن خود کو ایک ڈراؤنے خواب کا سامنا کرنے کے لیے مجبور پا رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”یہ صورت حال ابتدائی اندیشوں کو کافی بڑھا دیتی ہے جو 7 اکتوبر کو فلسطینیوں کے اردن میں داخل ہونے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی تحریک میں شدت پیدا ہونے کے حوالے سے محسوس کیے گئے تھے۔‘‘
مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک سال کیسا رہا؟
جرمن انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور میں افریقہ اور مشرق وسطیٰ ڈویژن کے ایک محقق پیٹر لِنٹل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مغربی کنارے میں 7 اکتوبر سے پہلے ہی سے صورت حال بہت کشیدہ تھی۔ فلسطینی اتھارٹی برسوں سے کمزور ہے، یہودی آباد کار فلسطینیوں پر حملے کر رہے ہیں اور موجودہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت نے اپنے اتحادی پروگرام میں یہ کہہ کر کشیدگی کو مزید بڑھا دیا ہے کہ مغربی کنارے، یا جیسا کہ وہ اسے یہودیہ اور سامریہ کہتے ہیں، پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ” 7 اکتوبر کے بعد سے یہ سب کچھ مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔‘‘
یہودی انتہا پسند آباد کار فلسطینی شہریوں پر حملے کر رہے ہیں، جب کہ اسرائیلی دفاعی افواج اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی عسکریت پسند دھڑوں کے درمیان کشیدگی ستمبر میں ایک نئی انتہا کو پہنچ گئی۔
لِنٹل نے بقول، ”مغربی کنارہ بارود کا ایک ڈھیر ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ” پہلے سے ہی ناقابل برداشت صورتحال موجود تھی جس میں ہلاکتوں کی تعداد ناقابل یقین حد تک زیادہ تھی لیکن غزہ اور 7 اکتوبر کی جنگ نے اس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘
شام میں گزشتہ سال کیسا رہا؟
بیروت میں مقیم مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مشیر لورینزو ٹرمبیٹا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے سبب میڈیا کی توجہ شام اور 13 سال سے جاری تنازعہ سے مزید ہٹ گئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ شام کی خانہ جنگی میں روس، ایران، ترکی، اسرائیل اور امریکہ جیسی غیر ملکی طاقتوں کا زیادہ سے زیادہ غلبہ ہے۔
ٹرمبیٹا کا کہنا تھا، ”ان تمام فریقوں کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں اور وہ استحکام اور سلامتی کے مقصد کا دعویٰ کرتے ہیں۔‘‘
دریں اثنا، شامی صدر بشار الاسد، جو شامی آبادی کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ابتدا میں کافی حد تک الگ تھلگ ہو گئے تھے، کا عرب اور یورپی ممالک میں تیزی سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
ٹرمبیٹا نے مزید کہا، ”ملکی طور پر، اقتدار پر اسد کی گرفت اب کوئی سوالیہ نشان نہیں رہی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسد نے 7 اکتوبر کے واقعات اور اس کے بعد کے واقعات پر، گزشتہ ایک سال سے، خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ”ان کا نقطہ نظر میڈیا کی روشنی سے دور ایک خاموش سفارت کاری ہے، جس کا مقصد طویل مدتی گھریلو اہداف حاصل کرنا ہے۔‘‘
مصر میں گزشتہ ایک سال کیسا رہا؟
واشنگٹن میں قائم تحریر انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹموتھی ای کالداس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خطے کے تمام ممالک میں سے صرف مصر نے 7 اکتوبر سے اپنی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو مضبوط کرنے کے لیے بحران سے فائدہ اٹھانے کا راستہ تلاش کیا۔
کالداس نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی غزہ میں امدادی اشیاء کی منتقلی کی اجازت پر اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور محاصرہ برقرار رکھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، جنگ بندی کے مذاکرات میں مصر کے مرکزی کردار نے مصر کی اہمیت کو دوبارہ قائم کر دیا ہے۔
کالداس نے کہا، ”اس کے نتیجے میں، قاہرہ نے واشنگٹن سے بہت زیادہ اضافی حمایت حاصل کی ہے۔‘‘
وائٹ ہاؤس نے 2024 ء میں اسے 1.3 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی ۔
کالداس نے کہا، ”یہ پہلا موقع ہے جب بائیڈن انتظامیہ نے پوری رقم جاری کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ”ماضی میں، واشنگٹن رقم کے کم از کم اس حصے کو روک لیتا تھا، جو انسانی حقوق سے مشروط ہوتی تھی۔‘‘
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” درحقیقت مصر کی اس محاذ پر صورتحال ابتر ہے۔‘‘
مزید برآں، 7 اکتوبر سے پہلے، مصریوں کی توجہ مصر کی خراب معیشت پر تھی۔
کالداس کے بقول، ”لیکن اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف کیے جانے والے خوفناک جنگی جرائم کی وجہ سے ان کی توجہ بٹ گئی ہے۔‘‘
کالداس نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ رائے عامہ مزید تبدیل ہو سکتی ہے، کیونکہ مصری اپنی حکومت کو بھی اس مسئلے کا سبب گردانتے ہیں۔
کالداس کے خیال میں،”مستقبل میں، مصر کی قیادت کے لیے یہ ایک نازک معاملہ ہوگا کہ وہ کس طرح توازن قائم کرے، کیونکہ وہ مغربی حمایت کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی۔‘‘