اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان میں چینی سفارت خانے اور قونصلیٹس جنرل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ چھ اکتوبر کو رات 11 بجے کے قریب پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے چینی عملے کو لانے والے ایک قافلے پر کیے گئے حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی شہری زخمی ہوا ہے۔
چینی قونصل خانے نے اپنے بیان میں شدت پسند حملے کی شدید مذمت کی ہے اور دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس کے بعد کا لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چینی قونصل خانے نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان لانچ کر دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دفترِ خارجہ کا ردِ عمل
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انھیں گذشتہ رات کراچی ایئرپورٹ کے قریب قافلے پر ہونے والے حملے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت پر گہرا صدمہ اور دکھ ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں اس گھناؤنے عمل کی مذمت کرتا ہوں اور چینی رہنماؤں اور باشندوں سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بھیانک حملے میں ملوث افراد پاکستانی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس بارے میں فوری تحقیقات جاری ہیں تاکہ ان کی شناخت کرتے ہوئے انھیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے چینی دوستوں کی حفاظت کے لیے پرعظم ہے، ہم ان کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔
دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان چینی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اورواقعے پر چینی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی پاکستان اور چین کی پائیدار دوستی پر حملہ ہے، سکیورٹی فورسز دہشت گردوں، سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، حملے میں ملوث افراد کو ضرور سزا ملے گی۔
ترجمان نے کہا کہ سیکورٹی فورسز دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب رات گئے ایک خودکش دھماکے میں دو چینی باشندوں سمیت تین افراد ہلاک جبکہ 17 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ دھماکے سے متعدد گاڑیاں بھی جل کر تباہ ہوگئی تھیں۔
کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ نے دھماکے کو خودکش حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صحافیوں کو بھیجے گئے بیان میں ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے میں کراچی ایئرپورٹ سے نکلنے والی چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے وفد کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں چینی باشندوں کو کب کب نشانہ بنایا گیا ہے؟
پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
کراچی میں 2017 سے یہ چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے، یہ حملے زیادہ تر بلوچ اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، پاکستان میں 2015 میں سی پیک کے منصوبے کے آغاز کے بعد بلوچ اور سندھی قوم پرستوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔
سنہ 2017 سے چینی شہریوں پر حملوں کی ابتدا ہوئی اور اب تک سی پیک سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے ہیں۔
اس سے قبل، رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے کو داسو ڈیم کی طرف جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجنییئر ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر ملک میں چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔
رواں سال جون میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی اور اس اجلاس کے اعلامیے میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس سے قبل جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنہ 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔
حملے کے بعد بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور ایک بیان میں حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق حملہ آور کی شناخت شاہ فہد عرف آفتاب بتائی گئی ہے۔