برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کے دوران خطے میں حوثیوں کی اسرائیل مخالف کارروائیوں نے انہیں ایک عسکری گروہ کے طور پر نمایاں کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق حوثی اس خطے میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں میں کافی مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔
یمن میں حوثی باغی گروپ کے رہنما نے اپنی ایک حالیہ تقریر کے دوران گزشتہ سال اپنے گروپ کی جانب سے کی گئی کارروائیوں کی تعداد کا فخر کے ساتھ اعلان کیا ۔ شمالی یمن کے بیشتر حصے پر قابض حوثی گروپ کے رہنما عبدالمالک حوثی نے پیر کے روز اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ان کے گروپ نے اپنے ملک کے قریبی سمندری علاقے سے گزرنے والے 193 بحری جہازوں کو نشانہ بنایا اور اپنے ‘دشمنوں بشمول اسرائیل‘ کے خلاف 1000 سے زیادہ میزائل اور ڈرون داغے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ غزہ میں عسکریت پسند گروپ حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی حمایت میں کیا گیا۔
اس سے پہلے اس گروہ کو ”چپلیں پہننے والی ایک غیر منظم ملیشیا‘‘ یا ”بندوق بردار کسانوں‘‘ کے گروہ کے طور پر بیان کیا جاتا تھا، حوثی باغیوں نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل بھی داغے ہیں اور حال ہی میں ایک امریکی ڈرون کو بھی مار گرایا اور کم از کم اب تک ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی چیز حوثیوں کو ان کی کارروائیوں سے نہیں روک سکی۔
خواہ وہ بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی حفاظت کے لیے کوئی بین الاقوامی میری ٹائم ٹاسک فورس ہو، یا حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر بار بار کی جانے والی فضائی بمباری۔
‘مزاحمت کے محور‘ کی سربراہی حوثیوں کے پاس؟
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایک سینئر فیلو مائیک نائٹس نے اس ماہ ایک تجزیے میں لکھا، ”حوثی جنگ کے آغاز سے زیادہ مضبوط، زیادہ تکنیکی طور پر ماہر اور مزاحمت کے محور کے زیادہ نمایاں ارکان ہیں۔‘‘
’’مزاحمت کا محور‘‘ غزہ، لبنان، عراق اور یمن میں ان مسلح گروہوں پر مشتمل ہے، جو سارے ہی کسی نہ کسی حد تک ایرانی حمایت یافتہ اور اسرائیل اور امریکہ کے مخالف ہیں۔
نائٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”حوثیوں نے غزہ میں ایک سال سے جاری جنگ کے دھچکوں کو بغیر کسی بڑے نقصان کے برداشت کیا ہے اور ‘مزاحمت کے محور‘ میں شامل تمام گروپوں سے بہترعسکری کارکردگی پیش کی ہے۔ نتیجتاً حوثی ‘مزاحمت کے محور‘ کے زیادہ نمایاں رکن بن رہے ہیں اور ان کے رہنما عبد المالک الحوثی کو ممکنہ طور پر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی جگہ لینے کے لیے بھی کہا جا رہا ہے، جو گزشتہ ماہ لبنان پر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اس طرح المالک ایران نواز اتحاد کے ایک علامتی سربراہ کے طور پر کام کر یں گے۔
مشرق وسطیٰ اور یمن کے امور پر مہارت رکھنے والے اور امریکہ میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار محمد الباشا کا کہنا ہے، ”حسن نصراللہ کی غیر موجودگی میں عبد المالک الحوثی تیزی سے اس خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھے ہیں، حوثیوں نے اسپاٹ لائٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے عوامل اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایران نواز گروہوں کی سربراہی حوثیوں کے حصے میں آ سکتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حوثیوں کی اسرائیل سے تقریباﹰ دو ہزار کلو میٹر کی دوری ہے اس کے برعکس حزب اللہ اور حماس اسرائیل کے براہ راست نشانے پر ہیں۔
الباشا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”مزید برآں حزب اللہ چار دہائیوں سے اسرائیل کی نگرانی میں ہے جبکہ حوثیوں کے بارے میں معلومات اس کے مقابلے میں بہت محدود ہیں۔‘‘
ایرانی میزائل
حوثیوں کو ممکنہ طور پر ایران سے بہتر ہتھیار بھی موصول ہو رہے ہیں۔ الباشا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”سات اکتوبر 2023ء سے پہلے ایران حوثیوں کو میزائلوں اور ڈرونز کے پرانے ورژن فراہم کر رہا تھا۔اب حوثی ایران کے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ‘خیبر شکن‘ کی تبدیل شدہ شکلیں لانچ کر رہے ہیں۔ یمن میں ایرانی ہائپرسونک میزائل فتح کا ظاہر ہونا بھی اب کچھ وقت ہی کی بات ہے، اگر وہ پہلے ہی وہاں نہ پہنچا دیے گئے ہوں۔‘‘
مائیک نائٹس نے اپنے اکتوبر میں شائع کیے گئے مطالعے میں دلیل دی ہے کہ یمن اپنے محل وقوع اور پہاڑوں میں ہتھیار چھپانے کی صلاحیت کی وجہ سے ایسے میزائلوں کے لیے ایک مثالی مقام ہو گا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے قریب اپنے محل وقوع کے پیش نظر حوثی اپنے پڑوسیوں پر حملہ کرنے اور عالمی تجارت اور کاروبار کو مزید متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل پر میزائل حملوں کا اعلان کرتے ہوئے حوثیوں کے ترجمان نے کہا تھا، ”خطے میںتمام امریکی اور برطانوی مفادات ہمارے نشانے پر ہیں۔‘‘
اگر اسرائیل آخرکار تہران کے حالیہ میزائل حملے کے جواب میں ایرانی توانائی کی پیداواری تنصیبات پر حملہ کرتا ہے، تو حوثی امریکی اتحادیوں کی توانائی کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر جواب دے سکتے ہیں۔ وہ اس سے قبل سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی پیداواری تنصیبات پر بھی راکٹ فائر کر چکے ہیں۔
ہمیں پرواہ نہیں، حوثی
الباشا کا کہنا ہے، ”دو دہائیوں کی فتوحات کے بعد حوثی مزید بہادر ہو گئے ہیں۔ ان کے بہت سے جنگجو اپنی جوانی سے ہی جنگ میں رہے ہیں اور ان کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہیں۔ یہ صورتحال انہیں ایک اسٹریٹیجک فائدہ دیتی ہے اور وہ ان حدود کو پار کر سکتے ہیں، جنہیں دوسرے پار کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔‘‘
کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے وابستہ اور یمنی امور کے ماہر ابراہیم جلال کہتے ہیں، ”حوثیوں کو ایران کے لیے بوجھ اور فائدہ اٹھانے، دونوں ہی کا ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ ایک غیر متوقع فطرت رکھنے کی وجہ سے ایک اثاثہ ہیں۔ لیکن وہ اس لحاظ سے ایک بوجھ بھی ہیں کہ وہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ایرانی صدر انہی خطوط پر ریمارکس بھی دے چکے ہیں کہ یہ لوگ پاگل ہیں۔‘‘
جلال بتاتے ہیں کہ کس طرح ایک مرحلے پر امریکہ کی جانب سے حوثیوں کی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے خلاف مہم پر فوجی ردعمل کی دھمکی دیے جانے کے فوراً بعد، حوثیوں نے اپنی ریلیوں میں، ”ہمیں پرواہ نہیں، اسے ایک بڑی عالمی جنگ بنا دیں‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیےتھے۔
جلال کا مزید کہنا ہے، ”اور وہ واقعی پرواہ نہیں کرتے، یہ تھوڑا سا پاگل پن ہے۔ اور یہ یمن کی شہری آبادی کے لیے ان کی بے توقیری کی سطح کو ظاہر کرتا ہے، جو گزشتہ دو دہائیوں میں زبردست انسانی اور معاشی جدوجہد سے گزر رہی ہے۔ اب حوثی اپنی کارروائیوں سے اسرائیلی فضائی بمباری کو بھی دعوت دے رہے ہیں ، اوراسرائیل کی شہری انفراسٹرکچر پر بمباری یمنی آبادی کے لیے مزید تکلیف دہ ہو گی۔‘‘