لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) اتوار کو پاکستان کے شہر کراچی کے ہوائی اڈے کے باہر ایک مبینہ خودکش حملے میں دو چینی شہری ہلاک اور متعدد پاکستانی زخمی ہوئے۔
مرنے والے چینی شہری کراچی کے قریب پورٹ قاسم میں بجلی گھروں کی تعمیر کے منصوبے پر کام کرنے والوں میں شامل لوگوں کے قافلے کا حصہ تھے۔
بلوچ شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے ہوائی اڈے سے آنے والے چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطح کے قافلے کو نشانہ بنایا تھا اور یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ پاکستانی حکام نے تاحال اس حملے کی نوعیت کے بارے میں تصدیق نہیں کی ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستان اور دیگر ممالک میں چینی کارکنوں پر ہونے والے متعدد حملوں میں یہ تازہ ترین حملہ ہے۔
اس وقت پانچ لاکھ سے زیادہ چینی کارکن جاری دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جن میں سے بہت سے سیاسی طور پر غیرمستحکم علاقوں میں ہیں۔
چین نے پاکستان میں ’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور‘ (سی پیک) کے تحت ملک میں 60 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے منسلک منصوبوں پر کام کرنے کے لیے چینی انجینئرز اور دیگر کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔
کتنے چینی کارکن بیرونِ ملک کام کرتے ہیں اور کیوں؟
چین کی وزارت تجارت کے 2022 کے اعداد و شمارکے مطابق، تقریباً 568,000 چینی باشندے دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کے زیرِانتظام منصوبوں کے لیے ملازمت پر رکھے گئے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو چین کے وسیع بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹو( بی آر آئی) کا حصہ ہیں۔
اس پروگرام کے تحت سڑک اور ریل روابط، بندرگاہوں اور پاور پلانٹس جیسے بی منصوبوں پر ایک اندازے کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔
اس کا مقصد چین کی برآمدات کے لیے نئے راستے بنانا اور چین اور ان تمام ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو گہرا کرنا ہے جنھوں نے اس منصوبے میں شراکت دار بننے کے لیے دستخط کیے ہیں۔
پاکستان بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئٹو کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک یعنی ’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘ کا گھر ہے۔ اس منصوبے میں چین کی مغربی سرحد سے پاکستان کے راستے بحیرۂ عرب پر واقع گوادر کی بندرگاہ تک متعدد سڑک اور ریل رابطے شامل ہیں۔
پاکستان کی طرح افریقہ کے کئی ممالک جیسے کینیا، ایتھوپیا اور سینیگال نے بہتر ٹرانسپورٹ اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے چین سے اربوں ڈالر کا قرضہ لیا ہے۔
ان ممالک کے باشندے اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کو چلانے والی کمپنیاں انھیں بہت کم ملازمتیں فراہم کرتی ہیں اور زیادہ تر چینی شہریوں کو ہی ملازم رکھتی ہیں۔
لندن میں ’سویس‘ کے چائنا انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر سٹیو سانگ کہتے ہیں، ’افریقی ممالک میں مقامی لوگ اس سے ناراض ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کمپنیاں بہت سے چینی کارکنوں کو لاتی ہیں، اور یہ سوچ موجود ہے کہ وہ افریقی لوگوں کو صرف وہی ملازمتیں دیتی ہیں جہاں کام بہت ہی مشقت طلب اور سخت ہو۔‘
برطانیہ میں قائم خارجہ امور کے تھنک ٹینک، چیٹھم ہاؤس کے ڈاکٹر الیکس وائنز کہتے ہیں، ’چین کہتا ہے کہ بیرون ملک اس کی سرمایہ کاری میں دونوں فریقوں کے لیے فائدہ ہے لیکن اس نے چین میں بےروزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان ممالک میں بھی ملازمتیں چینی کارکنوں کو ہی دی ہیں۔‘
چینی شہریوں کیلئے بیرونِ ملک کام کتنا خطرناک ثابت ہوا ہے؟
چین کی بیرون ملک سرمایہ کاری کی وجہ سے چینی کارکنوں کو دنیا کے کچھ خطرناک ترین ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جن میں ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں لڑائی جاری ہے۔
مثال کے طور پر، پاکستان عالمی بینک کی درجہ بندی کے مطابق، سیاسی طور پر سب سے زیادہ غیر مستحکم ممالک میں سے ایک ہے۔
چھ اکتوبر کو کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اس حملے کو ایک ’گھناؤنا فعل‘ قرار دیا ہے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس عمل کے ذمہ داران کو کڑی سزا دی جائے گی۔
بی ایل اے کی جانب سے اتوار کی شب کیا جانے والا حملہ اس شدت پسند تنظیم کی جانب سے پاکستان میں چین کے باشندوں یا اس کے منصوبوں کو نشانہ بنانے کی پہلی کوشش نہیں ہے۔
کراچی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض سہیل کا کہنا ہے کہ ملک میں چینی ترقیاتی منصوبوں سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں 20 کے قریب چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
ان حملوں میں سے متعدد کی ذمہ داری جہاں بلوچ شدت پسندوں کی جانب سے قبول کی گئی جبکہ چند حملوں کے لیے حکومت نے ’غیرملکی عناصر‘ کو ذمہ دار قرار دیا۔
بی ایل اے نے رواں برس مارچ میں بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کے قریب نیول ایئربیس پر حملہ کرنے کا اعتراف بھی کیا، جسے چینی کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ، اس نے اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چین کے زیر انتظام کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی ماہرین تعلیم اور ان کے پاکستانی ڈرائیور کو ہلاک کرنے کا بھی اعتراف کیا۔
یہ شدت پسند تنظیم بلوچستان میں حکومتِ پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد میں مصروف ہے۔
بی ایل اے کا کہنا ہے کہ بلوچ عوام کو صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری یا ان کے علاقے میں غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے معدنیات نکالنے سے ملنے والی دولت سے مناسب حصہ نہیں مل رہا ہے۔
بی ایل اے وہ واحد تنظیم نہیں جس نے پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا ہو۔
رواں برس مارچ میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے علاقے بشام میں جس خودکش حملے میں پانچ چینی باشندے اور ان کا ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا اس کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان نے ’غیرملکی عناصر‘ پر عائد کی تھی۔
اس سے قبل سنہ 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں بھی ایک بس کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس حملے کے لیے طالبان شدت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
ادھر افریقہ میں، جمہوریہ کانگو میں سونے کی کانوں میں کام کرنے والے چینی ملازمین پر کئی حملے ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے جولائی 2024 میں چھ چینی شہریوں اورکانگو کے دو فوجیوں کو شمال مشرقی کانگو میں سونے کی کان کے مقام پر گولی مار کر ہلاک کیے جانے کی خبر دی تھی۔
اس حملے کے ذمہ داران کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کانگو کی مقامی ملیشیا کے رکن تھے جو ان متعدد گروہوں میں سے ایک ہے جو خطے میں زمین اور قدرتی وسائل کے کنٹرول کے لیے لڑ رہے ہیں۔
جنوری 2022 میں، نائیجیریا میں مسلح افراد نے تین چینی کارکنوں کو ریاست نائیجر میں ایک ڈیم کی تعمیر کے مقام سے اغوا کیا، جسے سرکاری چینی کمپنی سائنو ہائیڈرو نے بنایا تھا۔
امریکہ میں قائم پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مسلح گروہ اکثر چینی شہریوں کو اغوا کرنا فائدہ مند سمجھتے ہیں کیونکہ وہ توقع کرتے ہیں کہ وہ کمپنیاں جو انھیں ملازمت دیتی ہیں ان کے لیے بھاری تاوان ادا کریں گی۔
افغانستان میں بھی طالبان چین سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی کارکنوں کے اغوا کے واقعات میں ملوث رہے ہیں جنھیں اکثر تاوان کے لیے پکڑا جاتا تھا۔
چین بیرونِ ملک کام کرنے والے اپنے کارکنوں کے تحفظ کیلئے کیا کرتا ہے؟
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے مطابق، چینی حکومت اور چینی کمپنیوں نے اب تک ’تاوان ادا کر کے، میزبان ملک کے حکام پر بہتر سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے دباؤ ڈال کر اورشدت پسندوں کی شناخت اور ان کی روک تھام میں مدد کے لیے نگرانی کی ٹیکنالوجی دے کر بیرون ملک چینی کارکنوں پر حملوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔‘
چین ایسے ممالک کی مسلح افواج کو تربیت بھی دے رہا ہے تاکہ وہ بہتر سکیورٹی فراہم کر سکیں جبکہ چینی کمپنیوں نے خود کش بمباروں، بندوق برداروں اور اغوا کاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے نجی سکیورٹی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہیں۔
پاکستان میں تازہ ترین حملے کے بعد، وہاں کے چینی سفارت خانے نے پاکستان میں اپنے شہریوں اور چینی کاروباری اداروں کو چوکس رہنے اور ’حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی پوری کوشش کرنے‘ کی یاد دہانی کروائی ہے۔
پی آئی ای ای کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چین کی جانب سے چینی کارکنوں کے میزبان ممالک سے رکھی جانی والی توقعات ایک حد تک ہی پوری ہو سکتی ہیں کیونکہ چین کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے پروگرام میں ایسے ممالک کو شامل کیا گیا ہے جہاں قانون کی حکمرانی کمزور ہے۔‘