سی پیک سے منسلک چینی انجینئروں پر حملے؛ ’پاکستان کیلئے چیلنجز بڑھ گئے ہیں‘

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے سب سے بڑے اورصنعتی شہر کراچی میں چینی شہریوں پر ہونے والے حالیہ حملے سے ایک مرتبہ پھر پاکستانی حکام کو ملک میں سی پیک اور دیگر منصوبوں سے جڑے چینی شہریوں کی سیکیورٹی سے متعلق دباؤ کا سامنا ہے۔

پاکستان کے مختلف خطوں میں جاری منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہری گزشتہ چند برسوں سے علیحدگی پسند اور اسلامی شدت پسند تنظیموں کے نشانے پر ہیں۔

پاکستان میں کام کرنے والے جن چینی شہریوں پر حملے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر پاکستان اور چین کے درمیان 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے حامل بڑے تجارتی منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری یا ‘سی پیک’ کے منصوبوں سے منسلک تھے۔

سی پیک منصوبوں پر کام کرنے کی غرض سے چینی انجینئرز اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔

چینی شہریوں پر تازہ ترین حملہ اتوار چھ اکتوبر کی شب ملک کے مصروف ترین کراچی ائیرپورٹ کے قریب ہوا ہے۔ چینی شہریوں کو جانے والے سیکیورٹی قافلے پر ہونے والے اس حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

اس حملے کی ذمے داری کالعدم بلوچ علیحدگی پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔

یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب اسلام آباد میں 14، 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس ہونے والا ہے۔

بعض حکومتی اہلکار اور ماہرین بی ایل اے کے کراچی حملے کے ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے اسے آئندہ ہفتے پاکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔

حملوں کا سی پیک اور چین سے تعلق؟

پاکستان میں شدت پسندی اورپاک چین تعلقات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد کالعدم تنظیمیں دو دہائیوں سے پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ تاہم 2013 سے ان حملوں میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کا تعلق سی پیک سے ہے۔

پاکستان میں چینیوں کو نشانہ بنانے والی بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند گروہ چین کو ایک نوآبادیاتی طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک چین پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر ان کی معاشی محرومیوں کو مزید بڑھارہا ہے۔ یہ گروہ اسی بنیاد پر سی پیک کی مخالفت کرتے ہیں۔

پیر کو کالعدم بی ایل اے نے اپنے اعلامیے میں بھی سی پیک منصوبے کو “بلوچوں کو مزید غلامی میں دھکیلنے اور ان کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی گھناؤنی سازش” قرار دیاہے۔

اتوار کی شب جن چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا وہ کراچی میں سی پیک کے ایک منصوبے پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے وابستہ تھے۔

اپنے حالیہ بیان میں بی ایل اے نے الزام عائد کیا ہے کہ’’چین اور پاکستان نے بلوچستان کے قیمتی وسائل، مثلا ریکوڈک کے سونے اور تانبے کی کانیں، سیندک کے معدنی ذخائر اور گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ، کو ہتھیانے کے لیے اپنی استحصالی منصوبہ بندی کو تیز کردیا ہے۔‘‘

بی ایل اے اور دیگر بلوچ علیحدگی پسند بلوچستان میں چین کی سرگرمیوں کو سی پیک کے آغاز سے پہلے بھی اپنے وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیتے رہے ہیں۔

سی پیک کے اعلان سے نو سال قبل مئی 2004 میں چینی مفادات پر پہلا حملہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہوا تھا۔ اس وقت گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لئے چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ایک بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمے داری بھی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔

بلوچ علیحدگی پسند گروپس کے علاوہ شدت پسند تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی بھی چینی انجینیئرز پر حملوں میں ملوث رہی ہے۔

جولائی 2007 میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں کالعدم ٹی ٹی پی نے تین چینی انجینئروں کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے ٹی ٹی پی نے اس حملے کو چین میں اسی ماہ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی ائی ایم) نامی ایک چینی شدت پسند گروہ کے رہنما کو چینی حکومت کی جانب سے ہلاک کرنے کا بدلہ قرار دیا تھا۔

اسلام اباد میں قائم سیکیورٹی تھنک ٹینک پاک انسٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 سے چینی شہریوں اور سی پیک سے منسلک منصوبوں پر اب تک کل 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوچکے ہیں۔

ان حملوں میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے۔

چینیوں پر حملے کرنے والی مجید بریگیڈ

اسلام آباد میں قائم جیو پولیٹیکل انسائٹ نامی تحقیقی ادارے کے لیڈ ریسرچر فہد نبیل کے مطابق بی ایل اے نے 2018 سے مجید بریگیڈ کو چینی مفادات پر حملے کے لیے فعال کردیا ہے جس کی وجہ سے ان کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

مجید بریگیڈ بی ایل اے کے فیلڈ کمانڈر اسلم بلوچ عرف اچھو کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی۔ رسمی طورپر اس تنظیم کے قیام کا اعلان مارچ 2010 میں ہوا تھا۔

البتہ مجید بریگیڈ کی پہلی کارروائی دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سامنے آئی تھی جب اس تنظیم نے سابق وفاقی وزیرنصیر مینگل کے صاحبزادے شفیق مینگل کے گھر دیسی ساختہ بم حملہ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجید بریگیڈ تقریباً سات سال تک غیر فعال رہی۔

سال 2017 میں پاکستان میں بی ایل اے کے کمانڈروں کی یورپ میں رہائش پزیر حیربیارمری سے اختلافات شروع ہوئے جو بعد میں شدت پسند گروہ کی تقسیم کا سبب بنے۔

اس کے بعد اسلم اچھو نے مجید بریگیڈ کو دوبارہ فعال کرتے ہوئے اگست 2018 میں بلوچستان کے ضلع دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا۔

اسلم اچھو نے مجید بریگییڈ کے اس حملے کے لیے اپنے بیٹے ریحان بلوچ کو استعمال کیا جبکہ حملے میں تین چینی انجینئرز اور پانچ دیگر زخمی ہوئے تھے۔

یوں مجید بریگیڈ کا چینی مفادات کو نشانہ بنانے کاسلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔

اسلام اباد میں قائم ایک تحقیقی ادارے دی خراسان ڈائری سے وابستہ محقق امتیاز بلوچ نے وائس اف امریکہ کوبتایا کہ بی ایل اے کا مجید بریگیڈ پاکستان میں چین کے اقتصادی مفادات اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے سرفہرست رہا ہے۔ یہ حملے بلوچستان کے ساتھ ساتھ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کئے گئے ہیں۔

چینی مفادات اورشہریوں پر ہونے والے ان ہائی پروفائل حملوں میں اگست 2018 میں دالبندین میں چینی انجینئروں کے قافلے پرخودکش حملہ، نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، 2019 میں گوادر شہر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملہ، جون 2020 میں کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچنج پر حملہ شامل ہیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچنج کے 40 فی صد ملکیتی شیئرز چینی کمپینوں کے ایک کنسورشیم کے پاس ہیں۔

اسی طرح اگست 2021 میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی گاڑی پر خودکش حملہ ہوا اور اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان سکھانے والے سینٹر کے باہر ایک خاتون بمبار نے حملہ کیا۔

کراچی حملے سے متعلق بی ایل اے کے پیر کو جاری کیے گئے اعلامیے میں تنظیم میں نئی تشکیل کردہ انٹیلی جینس ونگ “زراب” کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے اس کے کردار کو سراہا ہے۔

انٹیلی جینس ونگ “زراب” Zephyr Intelligence Research & Analysis Bureau کا مخفف ہے۔ تنظیم کے مطابق زراب محققیں، مخبروںِ، آئی ٹی کے ماہرین، ڈیٹا انالسٹ اور تفیش کاروں پر مشتمل ہے۔

چینی شہریوں پر حملے کراچی میں کیوں؟

پاک انسٹیوٹ اف پیس اسٹیڈیز کے اعداد وشمار کے مطابق اتوار کی شب کو ہونے والا بی ایل اے کا حملہ 2017 سے اب تک کراچی میں چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے۔

ان حملوں میں زیادہ تر بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں جن میں بی ایل اے کے ساتھ ساتھ سندھو دیش ریوولشنری آرمی ( ایس آر اے ) سرفہرست ہے جو جولائی 2020 میں پاکستان میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانےکے لیے قائم کردہ ‘براس’ نامی بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے نیٹ ورک کا حصہ بھی ہے۔

محقق فہد نبیل نے وائس اف امریکہ کو بتایا کہ کراچی میں چینی انجینئروں پر اتوار کی شب ہونے والا حملہ شہر میں 2005 سے لے اب تک کسی بھی بلوچ علیحدگی پسند گروہ کا 29 واں حملہ ہے۔

ان کاکہنا ہے کہ مجید بریگیڈ دہشت گردی کے حملوں کے لیے تین عوامل کی بنیاد پر اپنے اہداف کا تعین کرتی ہے۔ ان عوامل میں ہدف کی سیاسی اور علامتی اہمیت، بین الاقوامی سطح اثرات، اور کسی مخصوص ہدف پر حملے کے اقتصادی اثرات شامل ہیں۔

ان کے بقول، “اسی لیے یہ شدت پسند گروہ اپنے دہشت گردی کی کاروائی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے مالیاتی دارالحکومت سمجھے جانے والے شہر کراچی کو ترجیح دیتے ہیں۔”

فہد نبیل کا کہناہے کہ کراچی میں حملے کر کے بی ایل اے بین الاقوامی خبروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

بی ایل اے کے بعد ٹی ٹی پی وہ دوسرا اہم شدت پسند گروہ ہے جو صوبہ خیبر پختونخوا میں چینی اقتصادی مفادات اورشہریوں کو نشانہ بنارہا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہناہے کہ ٹی ٹی پی ایک حکمتِ عملی کے تحت افغانستان میں اپنے میزبان طالبان کی حکومت کو اسلام آباد اور بیجنگ کے دبائو سے بچانے کے لیے چینی شہریوں پر حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی۔

چینی حکومت کے خدشات

سی پیک کے تحت پاکستان میں نئی شاہراہوں اوربندرگاہ کی تعمیر اور توانائی کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اور کئی نئے منصوبے شروع اور مکمل ہونے والے ہیں۔

مگر ماہرین اور حکام کا کہناہے کہ حالیہ برسوں میں چینی مفادات اور شہریوں پر شدت پسند گروہوں کے حملوں میں اضافے کے باعث چین کی حکومت پریشان ہے اور پاکستان پر اپنا دباو بڑھا رہی ہے۔

کراچی میں حالیہ حملے کے بعد پاکستان میں چینی سفارت خانے اور قونصل خانے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں چینی حکام نے پاکستانی حکومت سے اس حملے کی جامع تحقیقات اور ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس بیان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات پر بھی زور دیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان کو پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا ہے اور ایسے حالات میں حکومت کے لیے چینی شہریوں کی سیکیوریٹی ایک بڑا چیلنچ بن کر ابھری ہے۔

ماضی قریب میں کراچی میں چینی باشندوں کی سیکییوریٹی پرمامور ایک سیکیوریٹی افسر کا کہناہے کہ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چینی ماہرین اور کارکنان زیادہ تر بندرگاہ، کان کنی، معدنیات، توانائی، ٹیلی کمیونیکشن اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ان چینی شہریوں کو سیکیوریٹی فراہم کرنے میں بڑے چیلنچز کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔

معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا “ملک میں سی پیک کے ساتھ ساتھ نجی کاروبار سے وابستہ چینی باشندوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب انہیں نشانہ بنانے والے بلوچ اور سندھی عسکریت پسند، ٹی ٹی پی اور داعش جیسے گروہوں کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

جون 2022 میں ان ہی خدشات بنا پر چینی باشندوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے چین نے حکومت پاکستان سے سی پیک پر کام کرنے والے اپنے شہریوں کے لیے ایک نجی چینی سیکیورٹی کمپنی بنانے کی درخواست کی تھی جسے پاکستان نے مسترد کردیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں