اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کراچی ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے میں دو چینی انجینئرز کی ہلاکت پر شرمندگی اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس واقعے سے دونوں ملکوں کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں. تاہم پاکستان چین کی خارجہ پالیسی میں اہمیت رکھتا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے دونوں ممالک کے تعلقات میں فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم سیکیورٹی انتظامات کو مزید سخت بنایا جائے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ ایسے حملوں سے نہ صرف سی پیک منصوبوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ چین اور پاکستان کے تعلقات بھی خراب ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اتوار کی شب کراچی ایئرپورٹ کے قریب چینی انجینئرز کے قافلے پر ہونے والے دھماکے میں دو چینی انجینئرز جان کی بازی ہار گئے تھے۔
‘چین نے سیکیورٹی بڑھانے کا کہا تھا لیکن پھر بھی یہ واقعہ ہو گیا’
منگل کو کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بشام واقعے میں چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد بیجنگ نے واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان میں چینی شہریوں کو مکمل سیکیورٹی دی جائے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں چینی شہریوں پر حملہ ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود یہ واقعہ ہوا جس پر ہمیں افسوس اور شرمندگی ہے مگر ہمارا حوصلہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور ہم سیکیورٹی مزید بہتر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے چینی سفیر کو یقین دلایا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس کے لیے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے جائیں گے۔
پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جو 15 سے 16 اکتوبر تک اسلام آباد میں ہو گا۔
‘یہ سی پیک کے خلاف سازش ہے’
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ چینی شہریوں پر حملہ سی پیک کے خلاف سازش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے دُشمن چاہتے ہیں کہ گوادر میں ترقی نہ ہو اور سی پیک پر بھی کام آگے نہ بڑے اور دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کے باوجود ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ مگر پاکستان کو چین کے ساتھ مل کر سیکیورٹی کو مزید بہتر بنانے پر کام کرنا چاہیے۔
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید چانڈیو کہتے ہیں کہ پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے چین کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ چین کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اہمیت ہے۔ لہذٰا ایسے واقعات سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ سی پیک کے خلاف سرگرم بلوچ تنظیموں کو بھارت اور بعض دیگر بڑی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بلوچ تنظیمیں سعودی عرب کو بھی گوادر میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی دھمکی دے چکی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جب کسی ملک کے باشندوں پر حملے ہوں تو وہ تشویش کے اظہار کے ساتھ ساتھ سفارتی چینلز پر بھی احتجاج کرتے ہیں۔
کابینہ اجلاس سے اپنے خطاب میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا وفد پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے جب کہ چین کے وزیرِ اعظم اعلٰی سطحی دورے پر پاکستان آنے والے ہیں۔ ایسے موقع پر چینی شہریوں کو ٹارگٹ کرنا اسے سبوتاژ کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ان کو کہاں سے فنانسنگ اور مدد مل رہی ہے، جانتے ہیں۔