پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) نے دعویٰ کیا ہے کہ جمرود میں ‘پشتون قومی عدالت’ کے سلسلے میں لگائے گئے اُن کے کیمپ پر پولیس کی فائرنگ سے تین کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
پولیس یا حکام کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ وائس آف امریکہ کی ڈیوہ سروس کے مطابق محکمہ صحت کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ تین لاشیں اسپتال منتقل کی گئی ہیں۔
جرگے پر پولیس کی ریڈ کے دوران متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرگے کے مقام پر پولیس نے کنٹرول سنبھال لیا ہے جب کہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی پی ٹی ایم کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔
حکام نے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سمیت درجنوں کارکنوں اور عہدے داروں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ دوسری جانب منظور پشتین نے ہر حال میں 11 اکتوبر کو جرگہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پی ٹی ایم کے کارکن ایک اور مقام پر جمع ہو کر پنڈال سجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں صوبے میں بے امنی کے خلاف ‘پشتون قومی عدالت’ کے نام سے ایک جرگہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صوبے بھر سے اس تنظیم میں شامل کارکن اور رضاکار پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی کے مقام پر پنڈال میں جمع ہو رہے تھے۔ وفاقی حکومت نے چند روز قبل پشتون تحفظ تحریک کو کالعدم جماعت قرار دے دیا تھا۔ فیصلے کے خلاف تنظیم نے پشاور ہائی کورٹ سے رُجوع کر رکھا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے بدھ کو سماعت کے دوران پی ٹی ایم کو ہدایت کی ہے کہ انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت اس پابندی کے خلاف اپیل دائر کی جائے۔ عدالت نے سماعت 15 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔
‘پی ٹی ایم کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی’
دوسری جانب وفاقی وزیرِ دخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کارروائی اور شناختی کارڈ بلاک ہو گا۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے محسن نقوی کا کہنا تھا کہ جرگے پر اعتراض نہیں مگر کسی کو متوازی عدالت لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
پابندی کے بعد انتظامیہ کا کریک ڈاؤن
پی ٹی ایم پر پابندی کے بعد خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری نے ضلعی انتظامیہ کو پشتون قومی جرگہ روکنے کے لیے کارروائی شروع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
جرگہ روکنے کے لیے منگل کی رات سے ہی مختلف سڑکوں اور شاہراہوں پر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار تعینات کر دیے تھے۔ علاقے میں موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ سروسز بھی متاثر رہیں۔
قبائلی رہنما دلاور خان آفریدی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کوکی خیل جرگے نے پنڈال میں کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے خیمے اور دیگر سامان واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
قبائلی ضلع خیبر کے سول اور انتظامی عہدے دار پی ٹی ایم کے خلاف کریک ڈاؤن پر کوئی مؤقف دینے پر تیار نہیں ہیں۔
دلاور آفریدی نے بتایا کہ پنڈال کو سرکاری تحویل میں لینے کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ چوں کہ یہ تنظیم کالعدم قرار دی گئی ہے اور علاقے میں دفعہ 144 بھی نافذ ہے۔ لہذٰا یہاں سیاسی اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی کے فیصلے پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم آئینِ پاکستان کے محافظ ہیں اور ریاستی اداروں کی جانب سے دی جانے والی قربانیوں کا بھی احترام کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل بیرسٹر محمد علی سیف نے وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور منظور پشتین کی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پی ٹی ایم کے جرگے میں بھی شریک ہوں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے پولیس کے کریک ڈاؤن کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرگے میں صوبے کے وسائل اور معدنی ذخائر سے متعلق حقائق سامنے لائے جانے تھے۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے ہتھکنڈوں کے باوجود ہر صورت میں جرگہ کیا جائے گا۔
طلبہ اور سرکاری افسران کو تنبیہ
دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے طلبہ، سرکاری افسران اور عام عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم قرار دی گئی پی ٹی ایم کی کسی سرگرمی میں شرکت سے گریز کریں۔ بصورتِ دیگر قانونی کارروائی کی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی ایم ایک غیر قانونی عدالت لگانا چاہتی ہے اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) بھی پی ٹی ایم کے جرگے کی حمایت کر چکی ہے۔ لہذٰا پی ٹی ایم کی حمایت کا مطلب ٹی ٹی پی کی حمایت کے مترادف ہو گا۔
سیاسی جماعتوں کی مذمت
پشتون تحفظ تحریک کے منعقد کیے جانے والے پشتون قومی جرگہ میں ابھی تک عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) سمیت کئی سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سابق وزیرِ اعلی اور سابق وزیرِ داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی احمد کنڈی، اے این پی کے میاں افتخار حسین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے کئی رہنما بھی پی ٹی ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی مذمت کر چکے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار شکیل وحید اللہ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم نے پشتونوں کو درپیش مسائل اُجاگر کرنے کی بات کی تھی اور کئی سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ لہذٰا حکومت کے اس فیصلے سے علاقے میں مزید بے چینی پیدا ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صوبے میں بے امنی اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر پشتون عوام پریشان ہیں اور ان مسائل کا حل چاہتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سرگرم رکن منظور آفریدی کہتے ہیں کہ پہلی بار پی ٹی ایم نے ایک منظم طریقے سے انسانی حقوق کی پامالی کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جس سے ریاستی ادارے یقینی طور پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔
منظور آفریدی کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز کے بعد ملک بھر کے کونے کونے سے دہشت گردی اور بے امنی سے متاثرہ پشتون پی ٹی ایم کے اپیل پر بہتر مستقبل کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے جرگے کے پیشِ نظر کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) نے یک طرفہ طور پر پانچ روز کے لیے جنگ بندی کا بھی اعلان کیا تھا جس پر بعض حلقوں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا۔