افغانستان میں مدارس کی تعداد میں اضافہ، انتہا پسندی بڑھنے کا خدشہ

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد ملک بھر کے دینی مدارس میں طلبہ کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی بڑھنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے نوجوان افغان طلبہ اور لڑکیوں کے لیے مواقع مزید کم ہوں گے۔

طالبان حکومت کے ڈپٹی وزیر برائے تعلیم کرامت اللہ اخوندزادہ نے ستمبر میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ ایک سال کے دوران 10 لاکھ بچوں نے دینی تعلیم کے لیے مدارس میں داخلہ لیا۔

اُن کا کہنا تھا ملک بھر میں 21 ہزار مدارس میں لگ بھگ 36 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ یہ تعداد افغانستان میں روایتی تعلیم کے 18 ہزار نجی اور سرکاری اسکولوں سے زیادہ ہے۔

یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب طالبان حکومت پر لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے یونیورسٹیوں میں داخلے پر پابندی کے خلاف عالمی برادری پہلے ہی تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔

یونیورسٹی آف پیٹس برگ سے وابستہ مصنفہ جینیفر برک کہتی ہیں کہ مدارس کی تعداد میں اضافہ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول مستحکم کرنے کی کڑی ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق گورننس سسٹم سے ہے۔ پچھلی افغان حکومت میں دیہات کی سطح پر تعلیمی نظام میں مذہبی رہنماؤں کا عمل دخل نہیں تھا۔ لیکن طالبان کے دور میں مقامی مذہبی رہنماؤں کو اختیارات دیے گئے ہیں۔

سن 2021 میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے افغانستان میں صرف پانچ ہزار مدارس تھے۔ تاہم اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے تعلیمی نظام میں تبدیلیوں کا فیصلہ کیا۔

طالبان حکومت کی وزارتِ تعلیم کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران درسی کتب اور سلیبس کو نئے سرے سے مرتب کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔

طالبان حکومت سے پہلے تمام طرح کے اسکولوں میں 90 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم تھے جن میں لڑکیوں کی تعداد 39 فی صد تھی۔ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد سیکنڈری اسکول میں بچیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی وجہ سے 15 لاکھ بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔

جینیفر برک کہتی ہیں کہ چھٹی جماعت کے بعد بچیوں کو اسکول جانے سے روکنا انتہا پسندی کی نشانی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ “لڑکیوں کی تعلیم پر ڈاکہ ڈال کر وہ ایک طرح سے ملک کے مستقبل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ آپ کے پاس خواتین نرسز یا ڈاکٹرز نہ ہوئیں تو اس سے اموات بڑھیں گی۔”

‘مجھے کہا گیا کہ آپ کو اچھی گھریلو خاتون بننا چاہیے’

ایک افغان خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ گیارہویں جماعت میں تھیں جب 2021 میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اب ہرات کے ایک مدرسے میں داخلہ لیا ہے۔ لیکن اُنہیں یہاں آ کر مایوسی ہوئی ہے۔

خاتون کا مزید کہنا تھا کہ “مجھے لگا کہ میں یہاں آ کر کچھ سیکھ سکوں گی اور اپنے دوستوں سے رابطہ رکھ سکوں گی۔ لیکن یہ ایک طرح سے برین واشنگ ہے۔ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، آپ کو ایک اچھی گھریلو خاتون بننا چاہیے۔”

اُن کا کہنا تھا کہ تین ماہ بعد دلبرداشتہ ہو کر اُنہوں نے مدرسہ چھوڑ دیا۔

‘طالبان چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے لیے نہ سوچیں’

مصر میں افغانستان کے سابق سفیر اور اسلام اور افغانستان پر بہت سی کتابوں کے مصنف محمد محقق کہتے ہیں کہ طالبان ان مدارس کے ذریعے اسلام کی اپنی تشریح پیش کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ “طالبان چاہتے ہیں کہ لوگ اپنے لیے نہ سوچیں، لہذٰا وہ اسلام کی ایسی تشریخ کرتے ہیں جس سے اُن کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ ملے۔”

مدارس نے نوے کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کے عروج میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کئی طالبان رہنما ہمسایہ ملک پاکستان کے مدارس سے فارغ التحصیل تھے۔

اپریل 2022 میں طالبان نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان کے ہر ضلعے میں تین سے 10 نئے مدارس بنائے جائیں گے۔

‘دینی اور جدید تعلیم میں توازن کی ضرورت ہے’

یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں پروفیسر صبا حنیف کہتی ہیں کہ عالمی برادری کو طالبان سے بات کرنی چاہیے کہ دینی اور جدید تعلیم میں توازن قائم رکھنے کے لیے کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ “طالبان سے یہ منوانا چاہیے کہ صرف دینی تعلیم سے ملک کے مستقبل کا نقصان پہنچے گا۔ کیوں کہ اس سے معاشی ترقی اور ملازمت کے مواقع کم ہوں گے۔”

صبا حنیف کا کہنا تھا کہ اگر بچے صرف ایک طرح سے سوچیں گے تو وہ لامحالہ انتہاپسندی کی طرف راغب ہوں گے۔ یہ خطے کے لیے خطرناک ہو گا۔ کیوں کہ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ رجعت پسندی کے ذریعے دوسروں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں