پیغمبرِ اسلام سے متعلق نازیبا بیان پر بھارت بھر میں احتجاج، متنازع سادھو کی گرفتاری کا مطالبہ

نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور مسلم تنظیمیں اترپردیش کے علاقے غازی آباد کے متنازع ہندو سادھو یتی نرسنگھانند کی پیغمبرِ اسلام کے بارے میں تقریر کے خلاف ملک گیر سطح پر احتجاج کر رہی ہیں۔ مظاہرین ان کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔

یہ احتجاج غازی آباد میں ڈاسنہ دیوی مندر کے سادھو کی 29 ستمبر کو کی گئی ایک تقریر پر کیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے پیغمبرِ اسلام کے بارے میں قابلِ اعتراض باتیں کی ہیں۔

نرسنگھانند کے خلاف مختلف ریاستوں میں ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں لیکن اب تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سمیت متعدد سیاسی جماعتوں نے یتی نرسنگھانند کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر اور لداخ کی مختلف جماعتوں اور مذہبی و سیاسی شخصیات نے بھی نرسنگھانند کے متنازع بیان کی مذمت کی ہے۔

بیان کے خلاف احتجاج اور مقدمات کا اندراج

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے پیر کو احتجاج کیا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ کوئی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہیں۔

بھارتی مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا ہے کہ یتی نرسنگھانند کے بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے۔ حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرے۔

جماعتِ اسلامی ہند نے کہا ہے کہ یہ بیان جان بوجھ کر سماج میں مذہبی کشیدگی پھیلانے کے لیے دیا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں جماعتِ اسلامی کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، اس لیے ان کے حوصلے بلند ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ متنازع سادھو کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ سماج میں بدامنی اور غصے کا ماحول ختم ہو۔

ادھر جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے وزیرِ داخلہ امیت شاہ، بی جے پی کے صدر جے پی نڈا اور اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے نام ایک خط میں سادھو نرسنگھانند کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعیت علما کی جانب سے رپورٹ کے اندراج کے علاوہ غازی آباد کے پولیس کمشنر سے ملاقات بھی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ غازی آباد کی پولیس نے متنازع ریمارکس کے خلاف از خود کارروائی کرتے ہوئے مختلف دفعات کے تحت یتی نرسنگھانند کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ ریاست اترپردیش، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر سمیت ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کی جانب سے بھی ایف آئی آر درج کرائی جا رہی ہیں۔

پولیس نے یتی نرسنگھانند کے حامیوں کے اس الزام کی تردید کی ہے کہ انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ہندو مذہبی شخصیات کی جانب سے بیان کی مذمت

ہندو مذہبی شخصیات بھی یتی نرسنگھانند کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔

سادھوؤں کی ایک تنظیم ’بھارتیہ سرو دھرم سنسد‘ کے کنوینر گوسوامی سشیل منی مہاراج نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے آشرم میں بدھ سے منعقد ہونے والی دو روزہ بین المذاہب کانفرنس میں مذہبی ہم آہنگی پر زور دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تنظیم کی طرف سے اور ذاتی طور پر بھی متنازع سادھو کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے قانون کے مطابق کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔

ہندوؤں کی ایک تنظیم ’بھارتیہ بالمیکی سادھو سماج‘ کے قومی صدر شیو ناتھ جی مہاراج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کسی کو بھی کسی مذہب یا اس کے رہنما کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی پیر کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ دیوتاؤں، عظیم شخصیات یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے خلاف توہین آمیز ریمارکس ناقابلِ قبول ہیں اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ احتجاج کی آڑ میں امن و امان خراب کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مسلمانوں کے خلاف مقدمات

میڈیا رپورٹس کے مطابق غازی آباد کی پولیس یتی نرسنگھانند کے حامیوں کی اس شکایت کی جانچ کر رہی ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے ایک سازش کے تحت چار اکتوبر کو ڈاسنہ دیوی مندر کے باہر اشتعال انگیز مظاہرہ کیا گیا۔

یاد رہے کہ چار اکتوبر کو مقامی مسلمانوں نے ڈاسنہ دیوی مندر کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ پولیس نے طاقت کا استعمال کر کے مظاہرین کو منتشر کیا تھا۔

اس پر پولیس نے ایک ایف آئی آر بھی درج کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سو، ڈیڑھ سو افراد نے مندر کے باہر مظاہرہ کیا۔ جب انھیں روکنے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور اسے اپنی ڈیوٹی کرنے سے روکا۔ پولیس نے 13 افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کئی دیگر مقامات پر احتجاج کرنے پر بھی پولیس نے متعدد مسلمانوں کو گرفتار یا حراست میں لے لیا ہے۔

اس کے علاوہ پولیس نے ’آلٹ نیوز‘ کے شریک مدیر اور فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف مختلف دفعات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا ہے۔

’یتی نرسنگھانند سرسوتی فاؤنڈیشن‘ کی جنرل سیکریٹری اُدیتا تیاگی نے پولیس کو شکایت کی تھی کہ محمد زبیر نے یتی نرسنگھانند کی ایک پرانی ویڈیو ایکس پر شیئر کی ہے۔

یتی نرسنگھانند کون ہیں؟

یتی نرسنگھانند ایک سخت گیر ہندو مذہبی رہنما اور غازی آباد اترپردیش کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری ہیں۔ وہ اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے اکثر میڈیا کی سرخیوں میں رہتے ہیں۔ وہ ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے کی بھی اپیلیں کر چکے ہیں۔

نرسنگھانند نے 2021 میں ریاست اتراکھنڈ میں منعقدہ ہندوؤں کے مذہبی پروگرام میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ترغیب دی تھی۔

ان کی اس تقریر کے خلاف زبردست احتجاج ہوا تھا جس پر انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ عدالت نے کئی ماہ بعد انہیں مشروط ضمانت پر رہا کیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ وہ متنازع بیان نہیں دیں گے۔

اس سے قبل 2019 میں بھی ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

رپورٹس کے مطابق نرسنگھانند نے روس میں تعلیم حاصل کی ہے اور ماسکو اور لندن سمیت کئی جگہوں پر کام کیا ہے۔ انہیں ’آل انڈیا سادھو کونسل‘ کا صدر بھی بتایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں