پشتون قومی جرگہ یا ’ریاست مخالف سرگرمیاں‘: پی ٹی ایم پر حکومتی پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر وفاقی حکومت کی جانب سی پابندی عائد کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ یہ تنظیم ’ریاست مخالف سرگرمیوں‘ میں ملوث ہے۔

وفاقی حکومت نے نہ صرف پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا ہے بلکہ اس تنظیم سے وابستہ افراد کے نام فورتھ شیڈوم میں بھی ڈال دیے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ نے 11 اکتوبر کو ضلع خیبر کے ایک بڑے میدان میں ’پشتون قومی جرگہ‘ یا عدالت کے انعقاد کا اعلان کر رکھا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے واضح الفاظ میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ پی ٹی ایم پر پابندی کی وجہ ’پشتون قومی جرگہ‘ ہے لیکن خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری کی جانب سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ چونکہ اس تنظیم کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اس لیے اس کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جرگے میں شرکت غیر قانونی ہو گی۔

اس پابندی اور حکومت کی جانب سے تنظیم پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر پی ٹی ایم نے کہا ہے کہ وہ کبھی بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے ہیں۔

اس جرگے کے بارے میں پی ٹی ایم کے قائدین کا کہنا ہے کہ تین روزہ گرینڈ جرگہ یا عدالت کے انعقاد کا مقصد بنیادی طور پر ایک ایسا فورم فراہم کرنا ہے جس میں پشتون قوم اپنے مستقبل کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل کا فیصلہ خود کرے۔

حکومت کے جانب سے تنظیم کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد تنظیم سے وابستہ افراد کی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ جرگہ کے پنڈال پر کریک ڈاؤن بھی کیا گیا ہے۔ بدھ کے روز پولیس کی جانب سے پی ٹی ایم کے جرگہ میں شرکت کرنے کے لیے آنے والوں پر پولیس کی جانب سے کریک ڈاؤن میں ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔

پی ٹی ایم کے ترجمان عبدالصمد لالہ نے گذشتہ روز کہا تھا کہ خیبرپختونخوا میں ان کے 130 کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

پی ٹی ایم کے ترجمان عبدالصمد لالہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پی ٹی ایم کا مقصد صرف اور صرف پشتون علاقوں میں امن کا قیام اور پشتونوں کو ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزرانے کا فیصلہ کرنے کا حق دینا ہے۔‘

دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک بیان میں اس جرگے کی حمایت کرتے ہوئے ضلع خیبر میں پانچ روز کے لیے جنگ بندی کا اعلان بھی کیا ہے۔

’پشتون قومی جرگہ‘ میں کیا ہونا تھا؟

ابتدائی طور پر پی ٹی ایم کی جانب سے تقریباً تین ماہ پہلے اس جرگے کا اعلان کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس جرگے میں پشتون اقوام، اضلاع ، سیاسی جماعتیں اور یہاں تک کہ مختلف تنظیمیں بھی شرکت کریں گی۔

پی ٹی ایم کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق اس جرگے کے سلسلے میں ضلع خیبر میں 80 کیمپ لگائے جانے ہیں جن میں 45 کیمپس اضلاع کے لیے مختص ہوں گے جہاں ان کے نمائندے موجود ہوں گے۔ اس کے علاوہ 35 کیمپس سیاسی جماعتوں، مختلف تنظیموں اور دیگر شعبہ جات کے سربراہان کے لیے ہوں گے۔

اس جرگے کے شیڈول کے مطابق پہلے روز ایک بڑی سکرین پر پشتونوں کے خلاف گذشتہ برسوں میں جو مبینہ کارروائیاں یا مظالم ہوئے ہیں، جنگوں سے جو نقصانات ہوئے اور اس کے علاوہ متاثرہ افراد کی کہانیاں، ویڈیوز اور دستاویزی شواہد دکھائے جائیں گے۔

دوسرے دن بند کمرے میں بااثر شخصیات ان مسائل پر غور و فکر کریں گے اور پہلے دن جو دیکھا گیا اس پر روشنی ڈالیں گے۔ اس دن کے دوران ہر کیمپ سے ایک نمائندہ منتخب کیا جائے گا جو جرگے کے آئندہ کے لائحہ عمل پر اپنے رائے دے سکے گا۔

تیسرے دن منتخب نمائندگان حلف اٹھائیں گے اور آئندہ کے ایجنڈے اور لائحہ عمل کو تیار کریں گے۔ اس دن کا اختتام قومی عدالت جرگہ کے نتائج اور مستقبل کے لیے بنائے گئے لائحہ عمل کے باقاعدہ اعلان سے ہوگا۔

پی ٹی ایم کے جرگے میں کون کون شرکت کرے گا؟

اس جرگے میں شرکت کے لیے پی ٹی ایم کے قائدین نے تمام سیاسی جماعتوں اورتنظیموں کو دعوت نامے بھیجے تھے۔ ان شخصیات میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور، مولانا فضل الرحمان، ایمل ولی خان، محمود خان اچکزئی اور دیگر بااثر شخصیات شامل ہیں۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں کے مطابق جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی نے اس جرگے میں شریک ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

جمعیت علمائے اسلام کے قبائلی علاقوں کے رہنما مولانا جمال الدین نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ جمعیت کے کارکن جرگے میں شرکت کریں گے، وہ خود بھی جائیں گے اور اگر موقع ملا تو وہ جرگے میں تقریر بھی کریں گے۔

عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جماعت کے سربراہ ایم ولی خان اس جرگے میں شریک ہوں گے۔ گذشتہ روز جاری اس بیان میں کہا گیا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی پی ٹی ایم کی پختون قومی عدالت میں شرکت کرے گی۔

’جہاں بھی پختونوں کے حقوق، وسائل اور قربانیوں کی بات ہو گی اے این پی وہاں صفِ اول میں کھڑی نظر آئے گی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس جرگے میں اے این پی کا وفد صوبائی صدر میاں افتخار حسین کی قیادت میں شرکت کرے گا۔

حکومت پی ٹی ایم سے نالاں کیوں؟

ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ پی ٹی ایم اور پاکستانی حکومت کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہوں۔ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ تنظیم کے کارکنان کی گرفتاریاں اور ان پر تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

پی ٹی ایم کی بنیاد سنہ 2018 میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کی کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد رکھی گئی تھی۔ اس کے یہ تنظیم متعدد مرتبہ پاکستان بھر میں دھرنوں اور جلسوں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔

پشتون قوم پرست گروہ کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پی ٹی ایم کی گذشتہ چھ ماہ کی سرگرمیاں ملک کے خلاف رہی ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ تنظیم کی جانب سے نہ صرف پاکستانی پرچم نذر آتش کیا گیا بلکہ بیرون ممالک پاکستان کے سفارت خانوں پر حملے کیے۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو بیرون ملک سے پاکستان مخالف بیانیہ بنانے کے لیے فنڈنگ مل رہی ہے اور پی ٹی ایم کی سرگرمیوں میں افغان باشندے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔

اس بارے میں خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت آئین و قانون کی پاسداری کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور وفاقی حکومت نے ایک تنظیم کو کالعدم قرار دیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے ضلع خیبر میں پولیس اور پی ٹی ایم کے کارکنان ہونے والے تصادم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ’نوٹیفکیشن کے بعد اس تنظیم کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی، اجتماع، جلسے یا جلوس کی اجازت نہیں مل سکتی۔‘

’اس نوٹیفکیشن کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ تنظیم آئین پاکستان اور ریاست پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ اس لیے اس کی ہر سرگرمی ریاست پاکستان کے خلاف ہے۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ پی ٹی ایم کو تین روز جرگے کے انعقاد کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ضلعی انتظامیہ نے ضلع خیبر میں دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے۔

’ہم پاکستان اور اس کے جھنڈے اور آئین کے محافظ ہیں ہمیں دفاعی اداروں کی دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں اور قربانیوں پر فخر ہے۔‘

انھوں نے اس بیان میں تنظیم کا نام یا مزید کسی تفصیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔

پی ٹی ایم پر پابندی کی مخالفت

پاکستانی سیاسی قائدین اور ملکی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی ایم پر پابندی عائد کرنے سے حکومت کو درپیش مسائل ختم نہیں ہوں گے۔

اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم پر پابندی لگانے سے مسئلے حل نہیں ہوں گے بلکہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگا۔

’کیا پی ٹی ایم پارلیمانی جماعت ہے جو آپ اسے ڈی لسٹ کررہے ہیں؟ امن کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے بجائے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ انھیں سنا جائے۔‘

اس بارے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قبائلی علاقوں کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالرشید نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پی ٹی ایم پشتون قوم کے حقوق کی جو باتیں کررہی ہے جیسے کہ پشتون قوم مظلوم ہے، ان کے انسانی اور آئینی حقوق کو سلب کیا گیا ہے، جبر اور تشدد کے نتیجے میں ان کی تذلیل ہوئی ہے اور ان پر ایک بے مقصد جنگ مسلط کی گئی ہے، یہ زمینی مسلمہ حقائق ہیں، ہم اس کی تائید بھی کرتے ہیں اور حمایت بھی۔‘

دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص یا تنظیم پشتون قوم کی زبوں حالی اور مظلومیت کا منفی سیاسی فائدہ اٹھاتی ہے اور ملک کی تقسیم کی باتیں کرتی ہے تو وہ اس کی نہ صرف کبھی حمایت نہیں کریں گے بلکہ اس کی مخالفت کریں گے۔

اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم پر پابندی لگانے سے مسئلے حل نہیں ہونگے بلکہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگا۔

حکومتی پابندی پر ردِعمل دیتے ہوئے پی ٹی ایم کے ترجمان عبدالصمد لالہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ ساڑھے چھ برسوں میں ان کی تنظیم یا اس سے وابستہ افراد ’یہ سب برداشت کرتے آ رہے ہیں۔‘

’آپ بتائیں ان برسوں میں ہمارے ساتھ کوئی رعایت کی گئی ہے؟‘

تنظیم پر پابندی کا فائدہ کیا ہو گا؟

پشتون معاشرے میں جرگے کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور ان جرگوں کے ذریعے بڑے بڑے مسائل حل کیے گئے ہیں۔ حال ہی میں وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ ان کی حکومت جرگہ نظام کی بحالی کے لیے اقدامات کرے گی۔

خیبرپختونخوا کے حالات اور پی ٹی ایم کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی و تجزیہ کار علی اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ پشتون سماج میں جرگے کی اہمیت ہے، لیکن حالیہ دنوں میں پی ٹی ایم کی جانب سے جرگہ بلانے کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ اپنی موجودگی کا احساس اور عالمی سطح پر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

’پی ٹی ایم ہمیشہ سے ایسی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی رہتی ہے جس سے ان کا وجود قائم رہے۔ ایسی سرگرمیاں جس سے ریاست اتفاق نہ کرتی ہو اور اس سے ان کے مؤقف کو دوام مل سکے۔‘

دیگر تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے آواز اٹھانے کے طریقے پر اعتراض اُٹھایا جا سکتا ہے لیکن ان کی باتیں غیرحقیقی نہیں۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار محمد فہیم کہتے ہیں کہ ’پی ٹی ایم ہمیشہ سے پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھا رہی ہے اور مظالم کو سامنے لا رہی ہے۔ اس میں ان کے طریقہ کار اور الفاظ کی ادائیگی پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جو مسائل وہ اٹھا رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔‘

’اگر وہ جرگہ بلا رہے ہیں تو یہ ایک جائز طریقہ ہے جس میں ان مسائل پر بات چیت ہو گی اور یہ پشتون روایات کا حصہ ہے۔ اس میں تمام شکوے اور شکایتیں حل کی جا سکیں گی اور اگر تمام لوگ جرگے پر متفق ہوں تو اس میں وزن پیدا ہوگا۔‘

انھوں نے حکومتی پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’حکومت کی جانب سے تنظیم اور جرگے پر پابندی کے کوئی اچھے نتائج برآمد نہیں ہوں گے بلکہ اس سے حالات خراب ہوں گے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ پی ٹی ایم کو سُنتی اور ان کے مطالبات اگر قابلِ عمل ہوتے تو ان پر توجہ دی جا سکتی تھی۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں