پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کتنی مؤثر ثابت ہو گی؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستان میں کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) پر لگائی جانے والی پابندی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوگی۔ اس لیے حکومت کو ان سے بات چیت کرکے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا سے تعلق رکھنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے پی ایچ ڈی اسکالر نیاز وزیر کا شمار ایسے ماہرین سیاسیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کی سرگرمیوں پر تحقیق کی ہے۔ اسلام آباد سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے نیاز وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس پابندی سے پی ٹی ایم کو زیادہ فرق پڑنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی پارلیمانی سیاست سے باہر ہے۔

یاد رہے پی ٹی ایم کے ایک رہنما کا میڈیا میں ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ان کے کارکنان تو پہلے ہی پابندیاں اور تکلیفیں بھگت رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے ساتھ جو کچھ کیا جا سکتا تھا کیا گیا ہے، اب اور کیا ہو سکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں نیاز وزیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کا جرگہ کوئی انہونی بات نہیں۔ ان کے بقول پشتون کلچر میں جرگہ مسائل پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ مسائل کے حل کے لیے بلایا جاتا ہے۔ان کے مطابق پشتون لوگ چاہتے ہیں کہ پشتون بیلٹ پر جاری جنگ کا حل ڈھونڈا جائے۔ ”اگر حکومتی پابندیوں کے باوجود یہ جرگہ منعقد ہو جاتا ہے تو پھر اس سے حکومتی رٹ کے کمزور ہونے کا تاثر پیدا ہوگا اور اگر یہ جرگہ منعقد نہ ہونے دیا گیا تو پھر اس سے پی ٹی ایم کی صفوں میں موجود ان انتہا پسند عناصر کی رائے کو تقویت ملے گی جو یہ سمجھتے ہیں کہ پر امن طریقوں سے مسائل کے حل کی جدوجہد کا آگے بڑھانا اب ممکن نہیں رہا۔‘‘

حکومت نے پی ٹی ایم پر افغانستان کے دہشت گردوں سے رابطے، طالبان سے تعلق، غیر ملکی فنڈنگ لینے اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے الزام لگا کر چند روز پہلے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ نیاز وزیر کہتے ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ ناانصافیوں کے شکار پشتون افراد حکومت سے اپنے مسائل کے حل کے لیے مدد مانگ رہے ہیں لیکن ریاست کا اصرار ہے کہ یہ فیصلہ وہ کریں گے کہ آپ نے کیا مانگنا ہے، کتنا مانگنا ہے اور کیسے مانگنا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پچھلے بیس سالوں سے پشتون تکلیف میں ہیں، ان کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں اور ان کے مسائل کے حل نہ ہونے سے ریاست اور لوگوں میں رشتہ کمزور ہو رہا ہے اور پی ٹی ایم جیسی تنظیموں کو سپیس مل رہی ہے۔

ماہر سیاست پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ سعید ہاشمی کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم ایک رد عمل کی تحریک ہے۔ اس طرح کی مزاحمتی تحریک اس وقت وجود میں آتی ہے جب کسی گروپ کے حکومت سے کیے جانے والے مطالبات پورے نہ ہونے پر کئی ہم خیال سماجی گروپ مل کے ایک بیانیہ بنا لیتے ہیں اور اپنی طاقت کو اپنے مطالبات کے حق میں استعمال کرنے لگتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسے لوگ ریاست سے مایوس ہو کر پریشر ٹیکٹکس کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ریحانہ کے بقول ایسے لوگوں کو بات چیت سے ‘انگیج ‘کرکے ان کے جائز مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ہونی چاہئیے۔ اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد ہم ”ممکنہ عملی حل‘ کی طرف آنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ریحانہ کا کہنا تھا کہ قانون توڑنے والے کو سزا ضرور ملنی چاہئیے اور اس سزا کے لیے قانونی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن ڈاکٹر ریحانہ کے مطابق جرم اور ردعمل کا فرق بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہیے۔ ان کی رائے میں سیاسی اور انتہا پسند عناصر میں تفریق ہونی چاہیے۔”ریاست لوگوں کی کسٹوڈین ہے اور اسے پابندی لگا کر ان لوگوں کو غیر ملکی عناصر کےرحم و کرم پر نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ ‘‘

سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی ایم تو اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی ایک تنظیم ہے۔ ان کا علیحدگی یا گریٹر افغانستان کا کوئی ایجنڈہ نہیں ہے۔ ”میری خبر یہ ہے کہ وہ گیارہ اکتوبر کو ایسا کوئی اعلان نہیں کرنے جا رہے جس کا خدشہ محسوس کیا جا رہا ہے۔‘‘

کے پی کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے نمل یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر خالد سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے علیحدگی پسند قوم پرست عناصر کو استعمال کرنے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا یہ خوف بجا ہے کہ یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہ بن جائے۔ ” ابھی تو پی ٹی ایم ایک محدود علاقے میں اپنے اثرات رکھتی ہے اگر ان سے بات چیت کرنے کی بجائے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو خدشہ ہے کہ ان کی مقبولیت میں کہیں مزید اضافہ نہ ہو جائے اور اس کے اثرات کہیں ملک کے دوسرے حصوں تک نہ پہنچ جائیں۔ اور انہیں کہیں اور زیادہ عالمی توجہ نہ ملنا شروع ہو جائے۔

دفاعی تجزیہ کار فاروق حمید کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی ایم کے غیر ملکی ایجنسیوں سے رابطے ہیں اور ان کا ریاست مخالف ایجنڈا ہے۔ ان کیپاکستان دشمن کارروائیوں کے ثبوت سوشل میڈیا پر بکھرے ہوئے ہیں۔یہ اب طالبان سے مل کر پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایک نئی سازش کرنے جا رہے ہیں ان پہر بہت پہلے پابندی لگا دینی چاہیے تھی۔ فاروق حمید نے خبردار کیا کہ ان مسائل پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ کے پی حکومت اور وفاق میں جاری تناو کو کم کیا جائے اور مسائل کے حل کی راہیں نکالی جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں