اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز) پاکستان شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے دوران چینی شہریوں کی نقل و حرکت کو انتہائی محدود بنا دے گا کیونکہ بلوچ عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے انہیں نشانہ بنائے جانے کے خطرات کافی بڑھ چکے ہیں۔
یہ فیصلہ گزشتہ اتوار کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک بم دھماکے میں دو چینی انجینئروں کی ہلاکت کے چند روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس بم دھماکے کی ذمہ داری علیحدگی پسند عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کر لی تھی۔
پاکستان میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کا سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو گا۔ اس علاقائی تنظیم میں چین، بھارت، ایران اور روس سمیت نو ممالک شامل ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ چینی وزیر اعظم لی چیانگ اس اجلاس کے آغاز سے پہلے ہی اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔
پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے متعدد ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ”متعلقہ اتھارٹی کی طرف سے احکامات موصول ہوئے ہیں کہ ایس سی او سمٹ اور مختلف وفود کے دورے کے سلسلے میں چینی شہریوں کی 14 سے 17 اکتوبر تک انٹرا سٹی/ انٹر سٹی اور ہوائی اڈوں وغیرہ سمیت ہر قسم کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔‘‘
تین اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکام کو بھی ان احکامات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار کا اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ادارے کو موصول ہونے والے حکم نامے کے بارے میں بتایا، جس میں لکھا گیا ہے، ”تمام متعلقہ افراد اس بات کو یقینی بنائیں کہ چینی شہریوں تک یہ پیغام پہنچا دیا جائے تاکہ وہ اس تناظر میں اپنے شیڈول ایڈجسٹ کر سکیں۔ اس مدت کے دوران کوئی بھی خلاف ورزی قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
اسلام آباد میں چینی سفارت خانے اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے فی الحال اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
چینی شہریوں کے خلاف کراچی میں ہونے والا خودکش حملہ گزشتہ چار برسوں سے جاری عسکریت پسندانہ کارروائیوں کی تازہ ترین کڑی تھی۔ پاکستان میں اس سال مارچ میں بھی ایک خودکش حملے میں ایک ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے پانچ چینی انجینئروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
دوسری جانب بیجنگ حکومت نے اسلام آباد سے مزید سخت حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
بی ایل اے بلوچستان میں سرگرم باغی گروپوں میں سے سب سے بڑا مسلح گروہ ہے، جو پاکستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ عسکریت پسند گروہ گوادر کی اسٹریٹیجک بندرگاہ پر بھی حملے کر چکا ہے۔ پاکستان میں کالعدم یہ گروہ بیجنگ حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اسلام آباد حکومت کو مقامی وسائل کے استحصال میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
اسی گروپ نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر بھی حملہ کیا تھا۔
بنیادی طور پر پاکستان کی وزارت داخلہ چینی شہریوں کی حفاظت اور ان کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ”سکیورٹی میں کوتاہی‘‘ کے بارے میں پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا، ”دو تین دن انتظار کریں، چیزیں واضح ہو جائیں گی۔‘‘