تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو ایران کی تیل تنصیبات پر بمباری سے روکا جائے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران کی تیل تنصیبات پر بمباری کی تو خطے میں ایران نواز گروپس اُن کی آئل تنصیبات کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں تین خلیجی ممالک کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ سے یہ مطالبہ کرنے والے ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر ہیں۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان ممالک نے امریکہ کو آگاہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی جوابی کارروائی کے لیے ان ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔
خیال رہے کہ ایران کی جانب سے چند روز قبل اسرائیل کی جانب درجنوں میزائل داغے گئے تھے جس پر اسرائیل نے جوابی کارروائی کا اعلان کر رکھا ہے۔ ایران نے بھی اسرائیل پر واضح کر رکھا ہے کہ اگر اس نے جوابی کارروائی کی تو جوابی ردِعمل زیادہ شدید ہو گا۔
خلیجی ممالک کی جانب سے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی خلیجی ممالک کے دورے پر ہیں۔
ایک سینئر ایرانی عہدے دار اور سفارت کار نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ ایرانی حکام نے رواں ہفتے ہونے والی ملاقاتوں میں سعودی عرب کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے ایران پر حملے کے لیے اسرائیل کی معاونت کی تو سعودی عرب کی آئل تنصیبات کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکیں گے۔
سعودی تجزیہ کار علی شہابی نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ ایران نے سعودی عرب پر واضح کر دیا ہے کہ “اگر خلیجی ریاستوں نے ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود کھولیں تو یہ اعلانِ جنگ سمجھا جائے گا۔”
ایرانی سفارت کار کے مطابق تہران نے ریاض پر واضح کر دیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف اسرائیل کی مدد کی گئی تو عراق اور یمن میں اس کے اتحادی سعودی عرب کے خلاف ردِعمل دے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران پر یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں اور عراق میں کچھ مسلح گروپس کی حمایت کرتا ہے۔ حوثی باغی پہلے بھی سعودی عرب میں میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہے ہیں۔
لیکن گزشتہ برس مارچ میں چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے کئی برسوں کی کشیدگی کے باعث سفارتی تعلقات بحال کر لیے تھے۔
ذرائع کے مطابق بدھ کو ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا محور اسرائیل کی ایران کے خلاف ممکنہ کارروائی ہی تھا۔
پیش رفت سے آگاہ ایک امریکی عہدے دار نے ‘رائٹرز’ کو تصدیق کی ہے کہ خلیجی ممالک صورتِ حال پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اسرائیل کی ممکنہ جوابی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے اس معاملے پر ردِعمل سے گریز کیا ہے۔ تاہم بدھ کو صدر بائیڈن اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیل کے ممکنہ ردِعمل سے متعلق ٹیلی فون پر بات کی تھی۔
ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد صدر بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کی جگہ ہوتے تو ایران کی تیل تنصیبات کے بجائے ‘متبادل اہداف’ کے بارے میں سوچتے۔