پنجاب: داسو حملے میں ملوث دو دہشت گرد مبینہ مقابلے میں ہلاک

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دعویٰ کیا ہے کہ داسو ہائیڈل پاور پراجیکٹ حملے کے منصوبہ ساز سمیت دو شدت پسند جیل سے منتقلی کے دوران فرار ہونے کی کوشش میں مارے گئے ہیں۔

جولائی 2021 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے اپر کوہستان میں شاہراہ قراقرم پر ہونے والے اس حملے میں مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں نو چینی شہری، دو ایف سی اہلکار اور دو مقامی افراد شامل تھے۔

نومبر 2022 میں انسداد دہشت گردی عدالت نے اس حملے کے جرم میں دو ملزمان کو سزائے موت، قید اور جرمانے کی سزائیں سنائیں جبکہ چار کو بری کر دیا تھا۔

محمد حسین اور ایاز عرف جہانزیب نامی یہ مجرم ساہیوال میں واقع ہائی سکیورٹی جیل میں قید تھے اور سی ٹی ڈی کے ترجمان نے جمعے کو ایک بیان میں کہا ہے کہ انھیں اس جیل سے تین دیگر شدت پسندوں کے ساتھ ’خطرے کی تنبیہ پر منتقل کیا جا رہا تھا‘۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ ان پانچوں افراد کی جیل سے منتقلی کے عمل کے دوران حملہ ہوا اور ’نامعلوم دہشت گردوں نے داسو حملے میں ملوث ساتھیوں کو چھڑوانے کی کوشش کی جس کے دوران محمد حسین اور ایاز اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے‘۔

بیان کے مطابق یہ واقعہ ساہیوال سمندری روڈ کے قریب پیش آیا اور باقی تین ’دہشت گرد الگ جیل وین میں ہونے کی وجہ سے محفوظ رہے۔‘

ترجمان کا دعویٰ ہے کہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی اور مقامی پولیس کے اہلکار ’فائرنگ کے دوران بال بال بچ گئے۔‘ اور حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے تلاش کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔

داسو حملے کا واقعہ کیسے پیش آیا تھا؟

حادثے کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں ایک مقامی مزدور نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ پراجیکٹ پر کام کے لیے جانے والے ہمارے قافلے میں دیگر گاڑیوں کے علاوہ رینجرز کی گاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔

’اس روز بھی ایسا ہی تھا ہم برسین کیمپ جو مرکزی شہر کومیلہ/ داسو سے سات کلومیٹر دور ہے پر شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر تھے جب چلتے چلتے ہم سے آگے جانے والی ایک گاڑی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا۔‘

’ایک شفٹ میں چینی ورکرز بشمول انجینئیرز اور عملے سمیت تقریباً ڈیڑھ سو سے دو سو مزدور ہوتے ہیں، چینیوں کے لیے الگ گاڑیاں ہوتی ہیں جن کے اندر بھی سکیورٹی اہلکار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اور صبح و شام کی دونوں شفٹوں میں یہی معمول ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ قدرے خراب اور دشوار گزار راستہ ہے کیونکہ متبادل شاہراہ قراقرم کے لیے اس علاقے میں بائی پاس تعمیر ہو رہے ہیں۔ موجودہ سڑک کی چوڑائی 22 فٹ ہے۔ اس لیے گاڑی 20 سے 25 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہی چلتی ہے اور دو گاڑیوں کے درمیان ہمیں بہت فاصلہ رکھنا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بدھ کی صبح جب ہم شاہراہ قراقرم کے ایک موڑ پر پہنچے تو یہ واقعہ ہو گیا۔

’سب لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا کوئی زخمی تھا۔ نیچے دریا کے پاس موجود بس کے گرد زخمی چینی بکھرے ہوئے تھے۔ اوپر موجود چینیوں کو رینجرز اہلکاروں نے نیچے نہیں جانے دیا۔ اس لیے ہم مقامی لوگ نیچے گئے ریسکیو والے بھی پہنچ آئے تو ایک ڈیڑھ گھنٹے میں ہم زخمیوں کو نیچے سے اوپر لے کر آئے اور پھر دیہی مرکز صحت، آر ایچ سی داسو پہنچایا۔‘

وہ کہتے ہیں چونکہ پاکستانی کیمپ اوچھار اور چین کا کیمپ برسین دونوں جائے وقوعہ سے زیادہ دور نہیں تھے اس لیے وہاں سے بھی جلد ہی عملہ یہاں آ گیا۔

بی بی سی سے گفتگو میں اس پراجیکٹ میں شامل مقامی مزدور نے بتایا کہ حادثے والی گاڑی تو مکمل طور پر تباہ ہوئی تاہم اس کے آگے اور پیچھے جانے والی گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے اور ایک گاڑی میں موجود ایک مقامی مزدور ہلاک بھی ہوا اور دو زخمی ہوئے۔

پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

خیبر پختونخوا پولیس کے اعلیٰ افسر ذیشان اصغر کے مطابق اس حملے کے پیچھے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان تھی جبکہ تمام ملزمان کا تعلق سوات کے علاقے سے تھا۔

حکام کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا اور حملہ آور کم عمر تھا جس کا کوئی بھی شناختی کارڈ موجود نہیں تھا جس سے اس کی شناخت ممکن ہو سکتی۔

حکام کے مطابق خود کش حملہ آور کی شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی۔

تاہم تفتیش کے دوران ایک اہم نکتہ سامنے آیا۔

تفتیشی حکام کے مطابق جس گاڑی کو اس حملے میں استعمال کیا گیا تھا وہ رجسڑ نہیں تھی۔

اس گاڑی کی شناخت کے لیے سوات سے کوہستان تک سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد حاصل کی گئی۔

’ان کیمروں سے بھی خاص مدد نہیں مل رہی تھی مگر جب سائنسی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا تو اس میں ایک کار ڈیلر چمن بارگین کا سٹکر لگا نظر آیا۔‘

تفتیشی حکام کے مطابق اس نام کے کار ڈیلر کی تلاش شروع کی گئی اور اسے بلوچستان سمیت پورے ملک میں تلاش کیا گیا۔

’آخر کار یہ ڈیلر ضلع مالاکنڈ کے علاقے چکدرہ میں پایا گیا جہاں سے تفتیش کے بعد ملزماں تک پہچنے میں مدد ملی۔‘ حکام نے بتایا کہ جس مرکزی ملزم کو سزائے موت سنائی گئی ہے، اس نے خود کش حملے میں استعمال ہونے والی کار سات ماہ تک اپنی تحویل میں رکھی تھی۔

تفتیشی حکام کے مطابق مرکزی ملزم سمیت دیگر افراد تمام مختلف دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے۔

واضح رہے کہ اس واقعے کے فوری بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا تھا کہ ‘بس میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے گیس لیک ہوئی جس سے ایک دھماکہ ہوا اور بس ایک کھائی میں جا گری۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ بس حادثہ تھا، دہشتگردی کا واقعہ نہیں۔’

تاہم چین نے بس کو پیش آنے والے اس حادثے کو دہشتگردوں کا حملہ قرار دیا اور ملوث مجرموں کو فوراً گرفتار کر کے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چین کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ اس واقعے سے سبق سیکھتے ہوئے چین، پاکستان تعاون کے منصوبوں پر سکیورٹی کو مزید بڑھانا چاہیے تاکہ ان منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں