اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان میں سخت گیر طالبان حکام نے کہا ہے کہ بدھ کو کم از کم دو خواتین سمیت نو افراد کو زنا جیسے مختلف جرائم کا مرتکب قرار دیے جانے کے بعد سرِ عام کوڑے مارے گئے ہیں۔
ان افراد میں سے پانچ کو قندھار کے اسپورٹس اسٹیڈیم میں کوڑے مارے گئے۔ اس موقع پر مقامی طالبان حکام، جوڈیشل افسران اور عام افغان شہری بھی موجود تھے۔
طالبان کی سپریم کورٹ نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پانچ افراد زنا، بدکاری اور ڈکیتی کے مرتکب پائے گئے۔ ان افراد میں سے ہر ایک کو 39 کوڑے اور دو سے سات سال تک قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مجرموں میں آیا خواتین بھی شامل ہیں۔
عدالت کی جانب سے ایک علیحدہ اعلان کیا گیا کہ افغانستان کے شمالی صوبوں تخار اور سمنگان میں دو مرد اور دو خواتین کو زنا کے جرم پر بدھ کو سرِ عام کوڑے مارے گئے۔
واضح رہے کہ 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان بھر میں اسپورٹس اسٹیڈیمز میں سینکڑوں مرد اور خواتین کو کوڑے مارے جا چکے ہیں۔
رواں سال جون میں طالبان حکام نے بھرے ہوئے شمالی اسپورٹس اسٹیڈیم میں 14 خواتین سمیت 63 مجرمان کو زنا اور ہم جنس پرستی پر اجتماعی کوڑے مارے تھے۔
طالبان کی جانب سے قتل کے کم از کم پانچ مجرموں کو پُرہجوم اسٹیڈیمز میں سزائے موت بھی دی گئی تھی۔ طالبان اس کے لیے اسلامی تصور قصاص کا حوالہ دیتے ہیں۔
عالمی سطح پر تنقید
سزائے موت اور جسمانی سزاؤں پر تنقید بھی ہو رہی ہے اور اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے فوری طور پر اسے ختم کرائے۔
لیکن طالبان رہنما اپنے فوجداری نظامِ انصاف کا دفاع کرتے ہوئے یہ مؤقف پیش کرتے ہیں کہ یہ سزائیں شریعت کے مطابق ہیں۔ وہ افغان خواتین کی تعلیم، ملازمت اور عوامی زندگی تک رسائی پر پابندیوں پر ہونے والی تنقید کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک اور انسانی حقوق کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔