پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اس جرگے میں خطے کے عوام کو درپیش مشکلات پر ماہرین اور سیاسی لوگ اظہار خیال کریں گے جبکہ حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے قرارداد کی شکل میں تجاویز پیش کی جائیں گی۔
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں پشتون تحفظ موومنٹ کے زیراہتمام ‘قومی جرگہ’ شروع ہو گیا ہے۔ اس جرگے میں پختونخوا سمیت بلوچستان اور پنجاب کے کئی علاقوں سے بھی لوگوں نے شرکت کی، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں۔ سہہ روزہ جرگے کا آج پہلا دن تھا جس کے لیے انتظامات میں منتظمین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
علی امین گنڈاپور جرگے کے میزبان
پشتون تحفظ موومنٹ کے جرگے سے قبل وفاق اور صوبائی حکومت کا جرگہ منعقد ہوا تھا جس میں صوبہ بھر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی تھی اور متفقہ طور پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو پشتون تحفظ موومنٹ کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا تھا۔
گزشتہ رات وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی قیادت میں ایک جرگے نے پی ٹی ایم کے قائدین سے بات چیت کی جس کے نتیجے میں آج جرگہ شروع ہوا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس جرگے کی میزبانی قبول کرتے ہوئے قرارداد کی شکل میں ان کے مطالبات کے حل کا وعدہ کیا۔ ان کا کہنا تھا، “پاکستان میں کئی آپریشن کیے گئے لیکن ان آپریشن کے نتیجے میں امن قائم نہ ہوسکا بلکہ ان کے نتیجے میں پختونوں کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔”
علی امید گنڈاپور کا مزید کہنا تھا کہ وہ جرگے کے مطالبات لے کر وفاق سے بات کریں گے۔ ان کے بقول یہ لوگ امن کی بات کرتے ہیں اور امن تشدد سے نہیں بلکہ بات چیت اور مذاکرات سے آئے گا۔ “میں بھر پور کوشش کروں گا کہ مشکلات کا حل نکال سکوں۔”
‘قومی جرگہ’ میں نوجوانوں کی شرکت
اس جرگہ میں نوجوانوں اور دیگر افراد کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ جرگے میں شریک خاتون عصمت شاہ جہان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت کو اپنی سیاست بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ “اگر آج وہ بات نہیں کریں گے تو کل لوگ ان کو ووٹ نہیں دیں گے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ ایک ‘ٹروتھ ری کانسی لیشن کمیشن’ بنائیں اور اگر ریاست یہ نہیں کرتی تو ہم خود شروع کریں گے یہاں جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ ریاست اورعوام کے تعمیرنو پر بات کریں گے۔”
انتظامی معاملات میں مشکلات
اس جرگے میں زیادہ تر لوگ پختونخوا کے ضم قبائلی اضلاع اور ملاکنڈ ڈویژن سے شریک ہوئے۔ سوات سے آنے والے ظفرعلی خان ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہ جرگہ کسی ایک گروپ کا نہیں ہے بلکہ یہ سارے پختونوں کے مسائل کے حل کے لیے ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہی انتظامات شروع کیے گئے ہیں، جن میں پہلے بہت ساری رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھیں۔”
جرگہ کیسے شروع ہوا؟
پشتون تحفظ موومنٹ کے جرگے کی پہلی نشست میں گذشتہ دو دہائیوں سے اس خطے میں جنگ کے اثرات، نقل مکانی کے منفی اثرات، معاشی مشکلات، لاپتہ افراد کے مسائل اور خطے میں معاشی بحران پر ماہرین نے بریفنگ دینی ہے۔ اس جرگے کا اعلان دو ماہ قبل کیا گیا تھا پولیس نے تین اکتوبر کو جرگے کے مقام پر کریک ڈاون شروع کیا تھا جو تین روز تک جاری رہا۔ چند روز قبل جرگہ کے مقام پر موجود لوگوں پر فائرنگ کی گئی جس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے چار افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہوگئے تھے۔ اس دوران وفاقی حکومت نےپی ٹی ایم پر پابندی لگاتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے مذمت کی اور پھر زیادہ تر نے اس میں شرکت کا اعلان کیا۔