کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں پر تشدد واقعات کی نئی لہرکے خلاف احتجاج زور پکڑ گیا۔
کوئٹہ سے 225 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ضلع دکی میں جمعرات کی شب عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 21 افراد ہلاک جبکہ 7 دیگر افراد زخمی ہوئے تھے ۔
واقعے کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے ۔ ماضی میں اس نوعیت کے اکثر حملوں کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔گزشتہ دو ماہ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 60 سے زائد مزدور ہلاک ہوچکے ہیں ۔
عسکریت پسندوں کے اس تازہ حملے کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ صوبے کے مختلف علاقوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں مظاہرین نے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر سولات اٹھائے ہیں۔
دکی میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کے لواحقین نے فرنٹیر کور بلوچستان کے مقامی کیمپ افس کے باہر بھی شدید احتجاج کیا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بلوچستان میں مائن ورکرز کے بڑھتے ہوئے سکیورٹی خدشات
پاکستان میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم یونائٹڈ ورکرز فیڈریشن کے مرکزی رہنما پیر محمدکہتے ہیں کہ بلوچستان کے مائن ورکرز حکومتی غفلت کی وجہ سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”کوئلے کی کانوں پر عسکریت پسند مسلسل حملے کر رہے ہیں۔ مائن ورکرز کو نہ حکومت کوئی سکیورٹی مہیا کر رہی ہے نہ ہی مائن مالکان۔ دکی میں جو لوگ عسکریت پسندوں کی بربریت کا نشانہ بنے ہیں ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا۔ صوبے میں بے گناہ محنت کشوں کا بلاوجہ خون بہایا جارہا ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر اس صورتحال کو بہتر بنانے پرکوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔‘‘
پیر محمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کوئلے کی کانوں کی سکیورٹی کے لیے حکومت جو خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، اس سے صورتحال میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ان کے بقول، ”صوبے میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 70 ہزار سے زائد مزدوروں کی جانیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔ عدم تحفظ کی وجہ سے ہزاروں لوگ یہاں سے پہلے ہی کام چھوڑ کر ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہوچکے ہیں ۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو صوبے میں کان کنی کا شعبہ یکسر تباہ ہوسکتا ہے۔‘‘
حکومتی فیصلوں سے صوبے میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال
پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران خان مرتضی کہتے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث بلوچستان میں شورش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”بلوچستان میں قیام امن کی مخدوش صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں بنائی جاسکتی جب تک یہاں حکومتی فیصلے زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوں گے۔ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں، جس میں ایک عام آدمی خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہا۔ اگر سیاسی معاملات طاقت کے بل بوتے پر حل ہوتے توآج بلوچستان میں حالات اس قدر خراب نہیں ہوتے۔ جوعناصر قیام امن کی صورتحال ثبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کا مقصد اس خطے کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔‘‘
کامران خان کہنا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومت نے جو پلان مرتب کیا ہے اس کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مذید کہا، ”بلوچستان میں قیام امن کی صورتحال خراب ہونے سے حکومت پر دباؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہاں غیرملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی سطح پر جامع اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
پشتون علاقوں میں بڑھتی ہوئی شورش کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
دفاعی امور کے سینئر تجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملے مقامی بلوچ اور پشتون قبائل کو آپس میں بہ دست وگریبان کرنے کی ایک سازش معلوم ہوتی ہے۔
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ دکی میں مزدوروں پر حملہ ان حملوں کا تسلسل ہے جو کہ اس سے قبل صوبے کے دیگر شمال مشرقی علاقوں میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان کے بقول، ”بلوچستان قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے۔ یہاں ترقیاتی عمل کو ثبوتاژ کرنے کے لیے بھی مزدروں پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں تاکہ صوبے میں ایک غیریقینی صورتحال پیدا کی جاسکے۔‘‘
ادھر دوسری طرف گورنر بلوچستان جعفر مندوخیل اور صوبائی وزراء نے کوئٹہ میں جمعے کو ایک مشترکہ نیوز بریفنگ میں بتایا کہ بدامنی میں ملوث گروپوں کے خلاف بلوچستان میں ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کے لیے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن دشمن عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
حکام نے بتایا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف بھی اگلے ہفتے کوئٹہ کا خصوصی دورہ کریں گے۔اس دورے کے دوران انہیں امن وامان کی صورتحال اور عسکرپت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی پر بریفنگ دی جائے گی۔