واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے ایف پی) اسرائیل پر میزائل حملوں کے تناظر میں امریکہ نے ایرانی تیل کی تجارت سے منسلک سہولیات اور بحری جہازوں پر پابندیاں نافذ کر دی ہیں۔
یکم اکتوبر کو ایران کی جانب سے اسرائیل پر ایک سو اسی میزائل داغے گئے تھے۔ ایران کا موقف ہے کہ یہ میزائل حملے اسرائیل کی جانب سے لبنان میں کیے گئے فضائی حملوں کے جواب میں کیے گئے۔ یہ بات اہم ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں اسرائیل نے لبنان میں بڑی فضائی کارروائیوں میں ایران نواز شیعہ عسکری گروہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ سمیت کئی اہم کمانڈروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے ہی حزب اللہ کی جانب سے حماس کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے طور پر اسرائیل پر میزائل اور راکٹ داغے جاتے رہے ہیں۔
جمعے کے روز امریکہ کی جانب سےایران پر عائد کردہ نئی پابندیوں میں ایرانی ”گھوسٹ فلیٹ‘‘ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بحری جہازوں اور ان سے جڑی کمپنیوں کا ایک نیٹ ورک ہے، جو متحدہ عرب امارات، لائبیریا، ہانگ کانگ اور کئی دیگر خظوں میں ایرانی تیل کی فروخت میں مصروف ہے۔
نئی پابندیوں میں بھارت، ملائشیا اور ہانگ میں قائم ایرانی تیل کی تجارت میں شامل کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
ان تازہ امریکی پابندیوں میں ایران کے توانائی کے شعبے کو ہدف بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی ایرانی تیل کی خریدوفروخت اور نقل و حمل میں شامل کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات پرامریکی پابندیاں تاہم ایک نہایت حساس معاملہ ہے کیوں کہ اس سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے مطابق نئی پابندیوں سے ایران کو اپنے میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے درکار مالی وسائل میں مشکلات ہوں گی۔ سلیوان کا کہنا تھا کہ ایران ان مالی وسائل کو امریکہ، اس کے اتحادیوں اور شراکت دارممالک کے خلاف فعال دہشت گرد گروہوں کی مدد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اپریل میں بھی ایران کی جانب سے اسرائیل پر ایک بڑا میزائل اور ڈرون حملہ کیا گیا تھا، تاہم اس میں بھی زیادہ تر راکٹ اور میزائل فضا ہی میں تباہ کر دیے گئے تھے۔