اسلام آباد (نمائندہ ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم کے نواحی علاقے کونج علیزئی میں اہلسنت برادری سے تعلق رکھنے والے مسافر گاڑیوں کے قافلے پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے خواتین اور بچوں سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے۔
ایف سی حکام نے مسافر گاڑیوں کی سیکورٹی پر مامور ایف سی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں زینبیون بریگیڈ کا مطلوب کمانڈر ارشاد حسین عرف قلندر بھی مارا گیا۔
پولیس کے مطابق قلندر سی ٹی ڈی کو کئی مقدمات میں مطلوب تھا۔
سیکیورٹی حکام کا مزید کہنا ہے کہ قافلہ چار گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ مسافر قافلے کو شیعہ علاقے کنج علیزئی میں مسلح افراد نے راستہ میں روک لیا اور مسافروں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے مسافروں کا تعلق مقبل قبائل سے ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو عینی شاہد محمد طاہر نےبتایا کہ ’انھوں نے براہ راست ہماری فلائنگ کوچ (مسافر ویگن) پر فائرنگ کی۔ جب فائرنگ کی تو اس وقت میں نے کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔ مجھے لگا کہ مجھ سمیت کسی کا بھی بچنا مشکل ہے۔ کافی دیر بعد جب فائرنگ کی آواز بند ہوئی اور آنکھیں کھولیں تو میرے ارد گرد زخمی خواتین، بچے اور مرد تھے۔‘
یہ الفاظ ضلع کرم کے علاقے اپر کرم میں کونج علیزئی کے علاقے میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں بچ جانے والے محمد طاہر کے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو عینی شاہد محمد طاہر نے مزید بتایا ہے کہ ’ہمارا قافلہ چار گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ہم لوگ مقبل کے رہائشی ہیں اور ایک روز پہلے قریب ہی کے علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہفتے کے روز جب ہم لوگ صبح کے وقت تقریباً نو بجے کونچ علیزئی کے علاقے میں پہنچے تو مسلح افراد نے ہمارا راستہ روک لیا۔‘
محمد طاہر کا کہنا تھا کہ ’ہمارا قافلہ سکیورٹی میں چل رہا تھا۔ ہماری فلائنگ کوچ کے علاوہ تین اور چھوٹی گاڑیاں تھیں۔ یہ سب لوگ بھی مقبل کے رہائشی اور جنازے میں شرکت کے لیے گئے تھے۔‘
اپر کرم پولیس کے مطابق ضلع میں فائرنگ اور تصادم کا پہلا واقعہ گذشتہ روز تھانہ روضہ کی حدود مقبل کے پہاڑی علاقے کنج علیزئی اور اس کے بعد دوسرا واقعہ بھی تھانہ روضہ کی حدود میں آج صبح پیش آیا، جس میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا۔
پولیس کے مطابق مسافروں کے قافلے پر ’اندھا دھند‘ فائرنگ کی گئی۔ قافلے میں متعدد مسافر اور نجی گاڑیاں شامل تھیں۔
یاد رہے کہ ضلع کرم میں ہر قسم کے سفر کے لیے پولیس سکیورٹی میں مسافر قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔
مقبل کے علاقے کنج علیزئی کے پہاڑ پر فائرنگ کے واقعہ کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ لوگ مبینہ طور پر شکار کے لیے ان پہاڑوں پر گئے تھے۔
ضلع کرم میں گذشتہ تین ماہ کے دوران اس نوعیت کے واقعات تیسری مرتبہ پیش آئے ہیں اور گذشتہ واقعات میں بھی بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔
اس سے قبل ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی قبائلی جھڑپیں معمولی مورچے کی تعمیر کے تنازعے پر شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ضلع میں چار مقامات پر آٹھ مختلف قبائل کے درمیان شروع ہو گئی تھی۔
یاد رہے کہ ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
حالیہ واقعات کے باعث علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز علاقے میں پہنچ چکی ہیں۔
ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں نو زخمیوں کو پہنچایا گیا تھا جس میں سے ایک زخمی ہسپتال میں دم توڑ گیا جبکہ 10 لاشیں ہسپتال میں پہنچائی گئیں تھیں۔
’حملہ آور کافی زیادہ تھے اور انھوں نے سڑک کو گھیرا ہوا تھا‘
محمد طاہر کہتے ہیں کہ ’جب ہم کونج علیزئی کے علاقے میں پہنچے تو ڈرائیور نے ایک دم چیخ کر بتایا کہ روڈ بلاک ہے۔ سب انتہائی خطرہ محسوس کررہے تھے جبکہ میرا خیال تھا کہ سکیورٹی کی گاڑی موجود ہے تو کچھ نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مگر حملہ آور تعداد میں کافی زیادہ تھے اور انھوں نے سڑک کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔
’ان میں ہر شخص کے پاس کلاشنکوف تو تھی ہی مگر ان میں سے کچھ کے پاس بڑا اسلحہ بھی تھا۔‘
محمد طاہر کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد نے جب اندھا دھند فائرنگ شروع کی تو میں نے چیخ کر کہا کہ سر نیچے کرو۔ جو سر نیچے کر گیا وہ محفوظ رہا۔‘
محمد طاہر کہتے ہیں کہ ’پتا نہیں کتنی دیر فائرنگ ہوتی رہی، مجھے لگا کہ وہ وہاں سے فرار ہوتے ہوئے بھی فائرنگ کر رہے تھے۔
’جب فائرنگ کی آواز بند ہوئی تو میں نے آنکھیں کھولیں اور سر اوپر کیا تو دیکھا کہ ہر طرف زخمی پڑے ہوئے تھے۔ میرے قریب کچھ لوگوں کی سانسیں بند ہوچکی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت کا سماں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر سکیورٹی اہلکار باہر کھڑے تھے اور زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کررہے تھے مگر زخمی بہت زیادہ تھے۔
’گاڑیوں میں سے لاشیں نیچے گری ہوئی تھیں‘
فائرنگ کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچنے والے ایک عینی شاہد تسلیم انور کے مطابق ’جب فائرنگ شروع ہوئی تو میں قریب ہی کے علاقے میں موجود تھا۔ جب فائرنگ ختم ہوئی تو اس وقت میں اپنے کچھ لوگوں کے ہمراہ موقع پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک فلائنگ کوچ اور تین چھوٹی گاڑیوں میں سے لاشیں نیچے گری ہوئی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک کار میں ڈائیور اور فرنٹ سیٹ پر موجود شخص ہلاک ہو چکے تھے جبکہ دوسری کار میں سے دو افراد کی لاشیں سڑک پر گری ہوئی تھیں۔‘
شاہد تسلیم کا کہنا تھا کہ فلائنگ کوچ میں زخمی موجود تھے جن کا خون بہہ رہا تھا۔ ’کچھ لوگ موقع پر پہنچے تو انھوں نے اپنی گاڑیوں میں زخمیوں کا منتقل کرنا شروع کیا جبکہ سکیورٹی اہلکار اور ایمبولینس بھی پہنچ گئے تھے۔‘
’حالیہ واقعہ بظاہر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی افواہ کا نتیجہ ہے‘
کرم ضلع کی انتظامیہ اور پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے پاس دوسرے واقعے سے پہلے اطلاع پہنچی تھی کہ کونج علیزئی کے پہاڑوں پر شاید لوگوں پر فائرنگ ہوئی اور کوئی ہلاک یا زخمی ہوا مگر ابھی تک ہمارے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں۔‘
نیاز محمد کونج علیزئی علاقے کے رہائشی اور امن جرگہ کے ممبر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت افسوسناک واقعہ ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے امن ہوا تھا اور اب دوبارہ یہ واقعہ ہونا خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔‘
نیاز محمد کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہ واقعہ علاقے میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی افواہ کی وجہ سے ہوا جو جمعے کو کونج علیزئی کے پہاڑی علاقے میں فائرنگ کے مبینہ واقعے کے بعد پھیلائی گئی تھی۔
ان کے مطابق ’اس افواہ میں کہا گیا تھا کہ کونج علیزئی کے علاقے کے رہائشی اوپر پہاڑوں پر گئے ہیں جہاں پر قریب ہی مقبل کے علاقے کے لوگ موجود تھے۔‘
’سوشل میڈیا پر کہا گیا کہ مقبل کے لوگوں نے کونج علیزئی کے لوگوں پر فائرنگ کی جس سے کچھ لوگ مارے گئے ہیں حالانکہ ابھی تک اس کی کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی، نہ ہی یہ پتا چلا ہے کہ وہاں پر کیا واقعہ ہوا۔‘
مقبل یونین کونسل کے چیئرمین محمد عمران کہتے ہیں کہ ’حالیہ ہنگاموں کے بعد طویل عرصہ بعد کچھ دن پہلے راستے کھلے تھے۔ جس کے لیے حکومت نے قافلے کا نظام متعارف کروایا تھا مگر اب چند دن کے اندر دوبارہ یہ واقعہ پیش آ گیا اور راستے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ حکومت، پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشتگردی کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مقبل میں جنازے پڑھائے جا چکے ہیں مگر لوگ مشتعل ہیں۔ ہم امن قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر امن تو اس وقت ہی قائم ہوگا جب انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور کسی کو بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں ہو گی۔‘
کرم ضلع کی پولیس اور انتظامیہ کے مطابق وہ تمام واقعے کی تفتیش کررہے ہیں اور ہر صورت راستوں کو پر امن بنایا جائے گا۔
ضلع کرم میں گذشتہ تین ماہ کے دوران اس نوعیت کے واقعات تیسری مرتبہ پیش آئے ہیں اور گذشتہ واقعات میں بھی بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔
فائرنگ کے حالیہ واقعات کے بعد علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز صدہ بائی پاس اور مقبل کے پہاڑی علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔
ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں دونوں واقعات کے نو زخمیوں کو پہنچایا گیا تھا جس میں سے ایک زخمی ہسپتال میں دم توڑ گیا تھا جبکہ 10 لاشیں ہسپتال میں پہنچائی گئیں تھیں۔
اس سے قبل ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی قبائلی جھڑپیں معمولی مورچے کی تعمیر کے تنازعے پر شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ضلع میں چار مقامات پر آٹھ مختلف قبائل کے درمیان شروع ہو گئی تھی۔
یاد رہے کہ ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
ضلع کرم اہم کیوں ہے؟
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے لیکن یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ ہیں۔
اسی طرح اس علاقے میں جیش محمد اور سپاہ صحابہ جیسی کالعدم شدت پسند تنظیموں کی موجودگی بھی ہے۔ ضلع کرم کا صدر مقام پاڑہ چنار ہے جہاں آبادی کی اکثریت اہلِ تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔
پاڑہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سےگزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریبا سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
افغانستان سے ملحقہ کرم کے اس قبائلی ضلع میں اہلِ سنت اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے قبائل آباد ہیں اور دونوں فرقوں کے درمیان زمینی تنازعات کشیدگی کا باعث بنتے رہے ہیں۔
چند سال قبل خیبر پختونخوا صوبے میں ضم ہونے والا قبائلی ضلع کرم ملکی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس خطوں میں سے ایک ہے۔ کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں کرم وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔