واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) اسرائیلی بمباری کے بعد لبنانی ملیشیا حزب اللہ کو وسائل کی قلت کا سامنا ہے۔ کئی ہفتوں سے جاری لڑائی کے باعث ایران نواز گروپ کو فنڈز ملنے کے راستے بھی محدود ہو گئے ہیں۔
لبنان اور امریکہ کے ریسرچرز اور امریکی محکمۂ خزانہ کے مطابق حزب اللہ کا قائم کردہ بینک ‘القرض الحسن’ اسے فنڈنگ فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہ بینک لبنانی حکومت کے لائسنس کے بغیر قائم کیا گیا تھا۔
وائس آف امریکہ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق تنظیم کے دوسرے فنڈنگ ذرائع میں لبنان کے دیوالیہ لیکن کمرشل بینک اور بیروت ایئرپورٹ پر نقدی لانے والے طیارے شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اپنی کارروائیاں تیز کی ہیں جب کہ جنوبی لبنان میں اس کی زمینی کارروائی بھی جاری ہے۔ اس عرصے کے دوران حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سمیت تنظیم کے کئی اہم عہدے دار اسرائیلی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کے میر امیت انٹیلی جنس اینڈ ٹیررازم انفارمیشن سینٹر (آئی ٹی آئی سی) کے مطابق حزب اللہ نے ‘القرض الحسن’ بینک خیراتی مقاصد کے لیے 1982 میں قائم کیا تھا۔ اس کے ذریعے مستحق لبنانی شہریوں کو بلاسود قرضے فراہم کیے جا رہے تھے جن میں اہل تشیعہ کمیونٹی کو ترجیح دی جاتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق بعد ازاں یہ ایک بڑے ادارے کی شکل اختیار کر گیا جس کی شاخیں جنوبی بیروت میں حزب اللہ کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں دحیہ سمیت لبنان کے مختلف شہروں میں بھی قائم کی گئیں۔
امریکی محکمۂ خزانہ نے 2007 میں اس بینک اور پھر 2021 میں اس کے ملازمین پر بھی پابندی عائد کر دی۔ بتایا جاتا ہے کہ بینک میں تقریباً 50 کروڑ ڈالرز جمع کیے گئے۔
ستمبر میں ‘ایم ٹی وی’ لبنان نے رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیل کے فضائی حملے میں حزب اللہ کی جانب سے کیش جمع کرنے کے سینٹرز اور ‘القرض الحسن’ بینک کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
‘حزب اللہ تںخواہیں دینے سے بھی قاصر ہے’
بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر بلال خاشان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسرائیل نے اپنی کارروائیوں میں بینک کی زیادہ تر شاخیں تباہ کر دی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ حزب اللہ اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے گھروں سے نکلنے والے افسران اور سپاہیوں کو ادائیگیوں سے بھی قاصر ہے اور یہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے سے بھی قاصر ہیں۔
امریکی محکمۂ خزانہ کے مطابق بینک کے چھ ملازمین لبنان کے لائنسس یافتہ بینکس میں اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے حزب اللہ کے بینک میں رقوم کی منتقلی کر رہے تھے اور اسی بنیاد پر ان پر پابندی لگائی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ان چھ افراد نے 10 برس کے دوران لگ بھگ 50 کروڑ ڈالرز ‘القرض الحسن’ میں منتقل کیے اور اسی وجہ سے حزب اللہ کے اس بینک کو عالمی مالیاتی نظام تک رسائی ملی۔
امریکی محکمۂ دفاع اور خارجہ کے ایک سابق اہلکار ڈیوڈ اشر نے بدھ کو ایک بیان میں بتایا کہ حزب اللہ اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے۔ کیوں کہ اب اسے لبنان کے بینکنگ سسٹم تک بھی رسائی نہیں مل رہی۔
بڑے بینکاروں کے ملک سے فرار کی اطلاعات
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ حزب اللہ کی مالی معاونت کرنے والے بڑے بینکار ممکنہ اسرائیلی کارروائی سے بچنے کے لیے یورپ اور دیگر خلیجی ممالک چلے گئے ہیں۔
ڈیوڈ اشر کہتے ہیں کہ بڑے سرمایہ کار اور بینکار دیکھ رہے ہیں کہ حزب اللہ اس وقت زیرِ عتاب ہے اور اگر انہوں نے اپنے بینکوں کے ذریعے حزب اللہ کو کیش فراہم کیا تو اسرائیل انہیں بھی ٹارگٹ کر سکتا ہے۔
اشر اور خاشان کے مطابق حزب اللہ کو کیش فراہم کرنے کا ایک اور ذریعہ ایران سے نقدی لانے والے وہ طیارے ہیں جو بیروت ایئرپورٹ پر اُترتے تھے۔
اسرائیل کی وارننگز
اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئل ہگاری نے 27 ستمبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیلی طیارے بیروت کی فضائی حدود میں گشت کر رہے ہیں تاکہ حزب اللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔ تاہم اُنہوں نے اپنے بیان میں نقدی کا ذکر نہیں کیا تھا۔
اس سے اگلے روز لبنان کی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے لبنانی اور غیر ملکی میڈیا کو بتایا تھا کہ ایران سے بیروت کی طرف آنے والے طیارے کو لبنان کی فضائی حدود سے دور رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔
وزارت نے کہا تھا کہ اسرائیل نے وارننگ دی تھی کہ اگر یہ طیارہ بیروت میں لینڈ ہوا تو اسرائیل ایکشن لے گا۔
ماہرین کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی سے زیادہ لڑائی جاری رکھنے کا انحصار گولہ بارود اور خوراک کی فراہمی پر ہے۔ خاص طور پر جب لڑائی ایک خاص مذہبی جذبے کے تحت لڑی جا رہی ہو۔