پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل جمرود میں پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے زیرِ اہتمام تین روزہ جرگے کے اختتام پر اعلان کیا گیا ہے کہ اگر دہشت گردی میں ملوث قوتیں دو مہینوں کے اندر پشتونوں کی سر زمین سے نہ نکلیں تو جرگے میں تشکیل دی جانے والی 80 رکنی کمیٹی ان کے خلاف لائحہ عمل طے کریے گی۔
پی ٹی ایم کا منعقد کیا گیا تین روزہ پشتون قومی جرگہ اتوار کی شب اختتام پذیر ہوا اور اس موقعے پر تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے شرکا کو مطالبات پڑھ کر سنائے۔
جرگے کے انعقاد سے قبل وفاقی حکومت نے پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا تھا تاہم اس خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے جرگے کے انعقاد میں مکمل تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اختتامی سیشن میں وزیرِ اعلیٰ سردار علی امین خان گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی بھی شریک ہوئے۔
وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اختتامی تقریر میں جرگے میں منظور کیے جانے والے اعلامیے پر عمل در آمد کرانے کی بھی یقین دہائی کرائی ہے۔
پشتون قومی جرگے کے اہم مطالبات
پشتون قومی جرگے کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور دہشت گرد تنظیمیں دو ماہ کے اندر ہمارے علاقے سے نکل جائیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر دو مہینے میں یہ نہ نکلے تو پھر جرگہ فیصلہ کرے گا کہ ہم ان قوتوں کو کس طرح نکالیں گے۔
جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے تحت فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی۔
اعلامیے کے نکات میں یہ بھی شامل ہے کہ ملک کا پرانا عمرانی معاہدہ (آئین) ناکام ہوچکا ہے اور نئے عمرانی معاہدے کو اس سرزمین کے مشرانوں کی مرضی کے مطابق بنایا جائے۔
مطالبات میں کہا گیا ہے کہ پاک افغان سرحد ڈیورنڈ لائن پر تمام تجارتی راستوں اور آمدورفت کو پرانے قوانین کے مطابق بحال کیا جائے۔
پشتون قومی جرگے کے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم بحال کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
پختون علاقوں میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے ہونے والی کارروائیوں کے دوران بے گھر ھونے والے تمام( آئی ڈی پیز) کی واپسی کے لیے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام آئی ڈی پیز کو اختیار ہے کہ واپسی کے لیے وقت کا تعین کریں جس کے بعد تمام جرگہ اور پختون قوم ان کا ساتھ دے گی۔
جرگے نے مطالبہ کیا کہ پنجاب سندھ اور وفاق میں پختون طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک بند کیا جائے بصورت دیگر تمام جرگہ اور پختون ان کی مدد کے لیے متعلقہ علاقے جائیں گے۔
اعلامیے میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ قبائلی علاقوں کو مفت بجلی فراہم کی جائے اور دیگر علاقوں کے لیے پانچ روپے فی یونٹ نرخ رکھا جائے جب کہ خیبر پختونخوا میں لوڈ شیڈنگ کی صورت میں تمام صوبوں کے کنکشن کاٹ دیے جائیں۔
مطالبات میں فوجی عدالتوں اور حراستی مراکز کے خاتمے، سیاسی قیدیوں کی رہائی، بلاک شدہ شناختی کارڈز کی بحالی، قدرتی وسائل پر صوبائی اختیارات دینے جیسے نکات بھی شامل ہیں۔
جرگے نے وکلا کی ایک ٹیم تیار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے جو ٹارگٹ کلنگ،دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں اور جبری طور پر گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کرے گی۔
اعلامیے کے مطابق یہ کمیٹی زمینوں اور جائیدادوں پر سیکیورٹی یا دیگر ریاستی اداروں کے قبضے کے خلاف مقدمات کی پیروی کریں گے۔ ساتھ ہی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاکتوں پر کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی نے اس جرگے کی بنیاد پر کسی کے خلاف کارروائی کی گئی تو جرگہ سخت ردعمل دے گا۔ اس کے علاوہ جرگے کے انتظامات اور تیاری کے دوران گرفتار کیے گئے تمام قیدیوں کو فی الفور رہا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وزیراعلی خیبر پختونخوا جرگے کے مطالبات کے مطابق صوبائی اسمبلی سے بل منظور کرائیں۔
آخر میں پشتون قومی جرگے کی 80 رکنی کمیٹی اور شرکا نے حلف لیا کہ ان مطالبات کو منوانے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے اور نہ کسی قربانی سے دریغ کریں گے۔
مطالبات کے اعلان سے پہلے کہا گیا کہ یہ اجتماع پوری پختون قوم کا جرگہ تصور کیا جائے گا۔
جرگے کا اعلامیہ سامنے آنے کے بعد علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ وہ بحثیت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اِن تجاویز پر عمل درآمدیقینی بنانے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
انہوں نے جرگے کے مطالبات صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔