پاکستان: آن لائن توہین مذہب کے بڑھتے واقعات اور ’چوکس گروپ‘

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ اے ایف پی/ڈی پی اے) پاکستان میں ایسے خود ساختہ ویجیلینٹی گروپ کار فرما ہیں جو آن لائن توہین مذب کرنے والوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان گروپوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

عروسہ خان کا بیٹا واٹس ایپ پر چیٹنگ کر رہا تھا، جب انٹرنیٹ پر مبینہ طور پر توہین مذہب کرنے والوں کو تلاش کرنے والے خود ساختہ ‘چوکس گروپ‘ کا نشانہ بنا۔

اس گروپ نے اس نوجوان پر آن لائن توہین مذہب کا ارتکاب کرنے کا الزام عائد کیا، ایک ایسا جرم جس کے لیے پاکستان میں سزائے موت مقرر ہے۔

یہ 27 سالہ نوجوان ایسے سینکڑوں نوجوانوں میں سے ایک ہے جن پر آن لائن یا واٹس ایپ گروپس میں توہین آمیز بیانات دینے کے الزام میں پاکستانی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور پولیس کا کہنا ہے کہ بہت سے مقدمات کی پیروی وکلاء کی سربراہی میں قائم نجی ویجیلنٹیز یا ‘چوکس گروپوں‘ کے ذریعے کی جا رہی ہے، جنہیں رضاکاروں کی مدد حاصل ہے جو ایسے انٹرنیٹ پر توہین مذہب کرنے والے افراد کو تلاش کرتے ہیں۔

ان الزامات کے تحت گرفتار ہونے والوں میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء اور اکاؤنٹنٹس سمیت کئی دیگر شعبوں میں کام کرنے والے نوجوان شامل ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کے رشتہ داروں کی گرفتاری سے قبل اجنبیوں نے دھوکہ دہی سے ان سے آن لائن ایسا مواد شیئر کروایا جس پر گستاخی کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔

عروسہ خان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ”ہماری زندگیاں الٹ پلٹ کر رہ گئی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کو، جس کا نام سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا گیا، میسیجنگ ایپ میں گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے لیے دھوکہ دیا گیا تھا۔

ایک مقامی پولیس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے خود ساختہ ویجیلنٹیز کے اقدامات کے پیچھے مالی فوائد حاصل کرنے کی ترغیب کار فرما ہو سکتی ہے۔

ایسے ہی ایک گروپ کی کارفرمائیوں کے نتیجے میں گزشتہ تین سالوں کے دوران 27 افراد کو عمر قید یا موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

مسلم اکثریتی پاکستان میں توہین مذہب ایک اشتعال انگیز الزام ہے، جہاں بے بنیاد الزامات بھی عوامی غم و غصے کو بھڑکا سکتے ہیں اور جہاں لوگوں کو ہجوم کی طرف سے تشدد کر کے ہلاک کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق قوانین ابتدائی طور پر نوآبادیاتی دور میں تشکیل پائے، لیکن 1980 کی دہائی میں اس وقت ان قوانین کو سخت کر دیا گیا جب آمر فوجی حکمران ضیاء الحق معاشرے کو ‘اسلامی‘ بنانے کی مہم چلا رہے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندوں نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں متعدد عدالتی سماعتوں میں شرکت کی، جہاں نوجوانوں کے خلاف آن لائن توہین آمیز مواد شیئر کرنے کے الزامات میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں اور جن کی پیروی ایسے نگرانی کرنے والے گروپوں اور ایف آئی اے کی جانب سے کی جا رہی ہے۔

ان میں سے ایک عروسہ خان کا بیٹا بھی ہے جو ملازمت کے متلاشی افراد کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل ہوا تھا، جہاں اس سے ایک خاتون نے رابطہ کیا۔ عروسہ خان کے بقول اس خاتون نے ان کے بیٹے کو ایک تصویر بھیجی، جس میں خواتین کے جسموں پر قرآنی آیات تحریر تھیں۔ اس کے بعد اس خاتون نے ایسی کوئی تصویر بھیجتے ہوئے ان کے بیٹے سے کہا کہ وہ اسے وہ تصویر بھیجے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ کس تصویر کی بات ہو رہی ہے۔

بعد ازاں اس نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔

ان نجی ‘چوکس گروپوں‘ میں سب سے زیادہ فعال ‘لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان‘ (ایل سی بی پی) یعنی قانونی کمیشن برائے توہین رسالت پاکستان ہے۔ اس گروپ کی طرف سے اے ایف پی کو بتایا گیا کہ وہ 300 سے زائد مقدمات کی پیروی کر رہا ہے۔

اس نجی گروپ کے رہنماؤں میں سے ایک شیراز احمد فاروقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک درجن سے زائد رضاکار آن لائن توہین رسالت پر نظر رکھتے ہیں، جن کا خیال ہے کہ ”خدا نے انہیں اس نیک مقصد کے لیے منتخب کیا ہے۔‘‘

’’ہم کسی کا سر قلم نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ہم قانونی راستے پر عمل پیرا ہیں‘‘، فاروقی نے یہ بات توہین مذہب کے 15 مقدمات کی سماعت کرنے والے کمرہ عدالت کے باہر اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ملزمان پورنوگرافی کے عادی ہیں اور فحش مواد پر ان کے نام اور ڈبنگ آوازوں کا استعمال کر کے معزز اسلامی شخصیات کی توہین کر رہے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ایسے مردوں کا سراغ لگانے اور انہیں گرفتار کرانے کی کوششوں میں خواتین کا بھی کردار تھا، لیکن وہ ان کے گروپ کی رکن نہیں تھیں۔

توہین مذہب سے متعلق ایسے مقدمات برسوں تک عدالتوں میں چل سکتے ہیں، حالانکہ سپریم کورٹ میں اپیل کرنے پر سزائے موت کو اکثر عمر قید میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور پاکستان نے کبھی بھی توہین مذہب کے جرم میں کسی کو پھانسی نہیں دی۔

ایک خصوصی عدالت رواں برس ستمبر میں تشکیل دی گئی تھی تاکہ درجنوں زیر التوا مقدمات کی سماعت میں تیزی لائی جا سکے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رپورٹ کے مطابق ایسے متعدد نگرانی کرنے والے گروہ آن لائن اظہار رائے کرنے والوں کو نشانہ بنانے یا سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے توہین مذہب کے ثبوت جمع کرنے کے لیے ‘مخصوص انداز‘ میں کام کر رہے ہیں۔

گروپ نے 2023 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا، ”ایسے تمام گروہوں کو اکثریتی اسلام کے خود ساختہ محافظوں کی طرف سے باضابطہ شکل دی گئی ہے۔‘‘

ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کی پولیس کی 2024 کی ایک رپورٹ میں جو میڈیا میں لیک ہوئی تھی، کہا گیا تھا کہ ”ایک مشکوک گینگ نوجوانوں کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے۔‘‘

’’دی بلاسفیمی بزنس‘‘ یعنی ‘توہین رسالت کا کاروبار‘ کے عنوان سے یہ رپورٹ ایف آئی اے کو ارسال کی گئی تھی جس میں سفارشات پیش کی گئی تھیں کہ ان گروہوں کی فنڈنگ کے ذرائع کا تعین کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔

ایف آئی اے کے دو عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں یہ رپورٹ موصول ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان کا دفتر نگرانی کرنے والے ایسے ‘چوکس گروپوں‘ سے حاصل ہونے والی معلومات پر کوئی کارروائی کرتا ہے۔

ایف آئی اے نے اس معاملے پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

مقدمے کی سماعت میں شامل ایک اہلکار نے عدالت کے باہر اے ایف پی کو بتایا: ”گرفتار کیے گئے ایک بھی شخص کو کسی بھی طرح سے پھنسایا نہیں گیا۔ انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا۔‘‘ اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ” اس کے بارے میں قانون بہت واضح ہے، اور جب تک قانون موجود ہے، ہمیں اسے نافذ کرنا ہوگا۔‘‘

توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کے خلاف وکالت کرنے والے گروپ ‘الائنس اگینسٹ بلاسفیمی پالیٹکس‘کے ڈائریکٹر عرفات مظہر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایسے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ اس لیے نہیں ہے کہ لوگ ‘اچانک زیادہ گستاخ‘ ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میسجنگ ایپس اور سوشل میڈیا کے استعمال میں اضافہ اور مواد شیئر کرنے اور فارورڈ کرنے میں آسانی البتہ ایک اہم عنصر ہے۔

ایسے مقدمات کا ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ایسے ملزمان کو دفاع کے ایسے وکیلوں کی تلاش میں شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جو ان کی نمائندگی کرنے کے لیے تیار ہوں۔

نفیسہ احمد نے، جن کے بھائی پر واٹس ایپ پر توہین آمیز تصاویر شیئر کرنے کا الزام ہے اور جن کے نام بھی تبدیل کر دیے گئے ہیں، کہا کہ ان کے خاندان کو قریبی رشتہ داروں تک نے ان سے قطع تعلق کر لیا۔

انہوں نے کہا، ”ملزمان کے اہل خانہ بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے، ہماری سلامتی یا زندگیاں خطرے میں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کچھ خاندانوں کو مقدمات لڑنے کے لیے ہزاروں ڈالر مالیت کے مکانات اور سونا تک فروخت کرنا پڑا۔

ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنے والے درجنوں افراد کے خاندانوں کی طرف سے تشکیل دیے گئے ایک سپورٹ گروپ نے دارالحکومت میں احتجاج کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ ان ‘چوکس گروپوں‘ اور پاکستانیوں کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ چلانے میں ان کے کردار کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم کیا جائے۔

نفیسہ کا کہنا تھا، ”اس معاشرے میں اگر کوئی قتل کرتا ہے تو وہ زندہ رہ سکتا ہے کیونکہ اس سے نکلنے کے ہزاروں طریقے ہیں لیکن اگر کسی پر توہین مذہب کا الزام لگایا جائے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”جب توہین رسالت کی بات آتی ہے تو عوام کی اپنی عدالت ہوتی ہے اور یہاں تک کہ اہل خانہ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں