پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے جمرود میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا جرگہ اتوار کی شب ختم ہو گیا۔ ماہرین جرگے سے پہلے پیدا ہونے والی کشیدگی کے تناظر میں جرگے کے پرامن انعقاد کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
جرگے کے اختتام پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے پاکستانی فوج، تمام مسلح گروہوں بشمول طالبان اور داعش سے دو ماہ میں خیبر پختونخوا کے تمام علاقے خالی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ پی ٹی ایم کی جانب سے یہ جرگہ ایسے وقت میں منعقد کیا گیا جب ملک بھر بالخصوص خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جرگے کے انعقاد سے کچھ ہی روز قبل وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود ماہرین اس جرگے کے پُرامن انعقاد اور ریاست مخالف جارحانہ بیانات سے گریز کو بھی اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
‘طاقت ہر مسئلے کا حل نہیں’
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ طویل عرصے بعد حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے کرتا دھرتا کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ تمام مسائل بندوق اور طاقت کے زور پر حل نہیں کیے جا سکتے۔
ان کے بقول پی ٹی ایم کے جرگے کے معاملے پر اداروں نے طاقت کے استعمال سے گریز کر کے دانش مندی کا ثبوت دیا ورنہ جس طرز کا ماحول پنپ رہا تھا وہاں کافی خون خرابے کا خدشہ ہو سکتا تھا جس کے بعد دوریوں اور نفرتوں کا ایک نیا سیلاب اُمڈ سکتا تھا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو پی ٹی ایم کو طاقت کے زور پر نہیں کچلا جا سکتا۔
ان کے بقول تین روزہ جرگے کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو جرگے کے دوران فوج یا دیگر سیکیورٹی اداروں کے خلاف نہ تو نعرے بازی ہوئی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کے جھنڈے لہرائے گئے۔
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کے مطابق اگر اس طرز کی سیاسی تنظیموں کے جلسوں میں ملک دشمن انٹیلی جینس ایجنسیوں کی ایما پر کوئی کام کیا جاتا ہے تو پھر تو ایکشن ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جانا چاہیے۔
نعیم خالد لودھی کے بقول جب اس جرگے کو سیاسی افراد کے حوالے کیا گیا تو نتائج بھی مثبت نطر آئے اس لیے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جتنی بھی سیاسی تحریکیں ہیں چاہے وہ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو بری نظر آئیں ان کے تحفظات کو سیاسی افراد کے ذریعے خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے تاحال جرگے کے مطالبات پر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا تین روز تک سیکیورٹی خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جمع رہنا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہے۔
کتنے آدمی تھے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی لحاظ علی نے اس تین روزہ جرگے کو کور کیا۔ ان کے بقول یہ جرگہ مختلف پنڈالوں پر مشتمل تھا جس میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
ماہرین کے مطابق کوہاٹ ٹنل کی بندش کی وجہ سے جنوبی اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ شرکت سے محروم رہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی کثیر تعداد دیکھی جا سکتی تھی جس میں نہ کسی کو کھانے پینے اور طبی امداد کی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے لحاظ علی کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب کچھ ہی روز قبل پی ٹی ایم کو کالعدم قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود وفاق کی جانب سے گورنر اور وفاقی وزرا اور خیبر پختونخوا کی قیادت بھی پی ٹی ایم کے نمائندوں کے ساتھ جرگے میں بیٹھنے پر مجبور ہوئی۔
لحاظ علی کے مطابق پی ٹی ایم صوبے کی دیگر جماعتوں کے نمائندوں کو بھی جمع کرنے میں کامیاب ہوئی اور یہ باور کرایا گیا کہ مسائل کا مل بیٹھ کر حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول سب سے بڑھ کر وہ تمام کارکنان جو اس سے قبل ایک دوسرے کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں تھے انھیں بھی آپس میں مل بیٹھنے اور گھنٹوں بات کرتے ہوئے پایا گیا جس کے بعد پی ٹی ایم کی نیٹ ورکنگ مزید مستحکم ہو گی۔
ان کے بقول اس کامیاب نیٹ ورکنگ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اگر پی ٹی ایم کسی نئے جرگے کے انعقاد کا اعلان کرتی ہے تو وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کامیابی مزید کھل کر سامنے آ سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو تین روزہ جرگے کے دوران کوئی بھی خلافِ آئین بات نہیں کہی گئی اور اس طرح حکومت نے بھی جرگے کی اجازت دے کر دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ ورنہ شنگھائی تعاون کانفرنس سے قبل پاکستان عالمی سطح پر کسی بھی ناخوش گوار ماحول کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
بیک چینل رابطے کام آئے؟
سابق سیکریٹری داخلہ خیبرپختونخوا سید اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ جرگے سے قبل حکومت اور جرگہ اراکین کے درمیان سیکیورٹی کی صورتِ حال کافی تشویش ناک صورتِ حال اختیار کر گئی تھی۔ پولیس کی مبینہ فائرنگ سے پی ٹی ایم سے تعلق رکھنے والے تین کارکنان بھی ہلاک ہوئے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کا اکھٹے بیٹھنا اور پھر منظور پشتین کو ریاست مخالف بیانیے سے گریز کرنے پر آمادہ کرنا ضرور کسی بیک چینل کا شاخسانہ لگتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ جرگہ کا انعقاد کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جمع افراد کو پرُامن طریقے سے منتشر کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔
اُن کے بقول حکومت، سیکیورٹی اداروں اور پی ٹی ایم کے جرگے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ پی ٹی ایم نے جرگے کے اندر اپنے جذبات کی عکاسی بھی کی اور پھر اس مجمع کو احسن طریقے سے منتشر کیا جس میں کوئی ناخوش گوار واقعات پیش نہیں آئے۔
تجزیہ کار حق نواز خان کے مطابق پی ٹی ایم کے جلسے سے قبل ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور پُرامن جرگہ کارکنان پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کرتے ہوئے تین افراد کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم کو ‘ریاست مخالف تنظیم’ قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی گئی۔
تاہم بعد میں حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کی راہ ہموار کی گئی۔
وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ بات چیت حکومت کی مجبوری تھی کیوں کہ اس سے قبل بھی بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو بھی بلوچستان حکومت نے جلسے جلوس کی اجازت نہیں دی تھی لیکن پھر بھی وہ ہر طرح کے جلوس منعقد کرنے میں کامیاب رہے۔
اُن کے بقول عموماً پی ٹی ایم فوج اور انٹیلی جینس اداروں سے متعلق سخت زبان استعمال کرتی ہے اور جلسوں میں افغانستان کے جھنڈے بھی لہرائے جاتے ہیں۔ لیکن اس جرگے سے قبل سیاسی رہنماؤں کی مداخلت اور دیگر فریقوں نے پی ٹی ایم کو قائل کیا کہ وہ آئینِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے اپنے احتجاج کا حق استعمال کریں۔
ماہرین کے بقول اس سارے معاملے میں وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور شدید دباؤ میں تھے کیوں کہ پی ٹی ایم کے خلاف صوبائی پولیس اور انتظامیہ استعمال ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی ہمدردیاں بھی پی ٹی ایم کے ساتھ تھیں۔ لہذٰا ان حالات میں علی امین گنڈا پور کو بھی متحرک ہونا پڑا۔